سعودی عرب اور مسئلہ فلسطین .بقلم فردوس جمال

0
47

سعودی عرب اور مسئلہ فلسطین .بقلم فردوس جمال

سوشل میڈیا کے ایک صاحب جس کے اچھے خاصے فالورز ہیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تصویر لگا کر لعن طعن کر رہا تھا کہ عیاش پرست شہزادہ اسرائیل کے آگے لیٹ گیا اور اسرائیل کو تسلیم کر ڈالا،ہم نے کمنٹ کے دو تین وٹے مارے کہ معلوم پڑا موصوف امارات اور سعودی عرب کو ایک ملک سمجھ بیٹھا تھا.

ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جنہیں پڑھنا چاہئے تھا وہ لکھ رہے ہیں اور ایسے نابغے پھر گل کھلاتے ہیں،بہت ساروں کو یہ تک معلوم نہیں کہ دبئی امارات کا شہر ہے کہ امارات دبئی کا،کچھ تو دبئی کو سعودی عرب کا شہر سمجھتے ہیں،ایسے بھی دانشور پائے جاتے ہیں جو پورے عرب کو سعودی عرب سمجھتے ہیں لہذا عرب کے کسی بھی ملک میں کچھ ہو یہ لوگ ملبہ سعودی عرب پر ڈالتے ہیں، نشانہ سعودی عرب کو بناتے ہیں.

حالانکہ اگر عرب ملکوں کی بات کریں تو یہ کل 22 ممالک ہیں ان میں سے 12 بر اعظم ایشیاء میں واقع ہیں جب کہ 10 بر اعظم افریقا میں آتے ہیں.

یہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے کہ آپ بغیر کسی تحقیق اور بغیر کسی علم کے سارے عرب کے گناہ سعودی عرب کے سر ڈال دیں.

اسرائیل کو متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا ہے نہ کہ سعودی عرب نے،اگر آپ لکھنے کی بجائے پڑھنے کی نیت فرمائیں تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ عرب دنیا میں سعودی عرب ایسا واحد ملک ہے جس نے اب تک اسرائیل کے خلاف
سب سے بڑھ کر جارحانہ موقف اختیار کئے رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر فلسطینوں کی عملی مدد کی ہے.

اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سعودی عرب نے اعلانیہ
اس کو غاصب کہا اور تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا.

سعودی عرب وہ واحد عرب ملک ہے جس کے بادشاہ کنگ فیصل نے کہا تھا کہ اگر پوری عرب دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کرے تو سعودی عرب تسلیم نہیں کرے گا.

1948 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں سعودی عرب کے پاس موجود ٹوٹی پھوٹی بندوقیں،رائفلیں،اور ہتھیار دے کر ملک عبدالعزیز مرحوم نے اپنی قوم کے گھبرو جوانوں اور فوجی سپاہیوں کو لڑنے کے لئے محاذ پر بھیج دیا تھا.

1956 ء کی جنگ میں سعودی عرب نے برطانیہ،فرانس اور مغربی طاقتوں کو تیل بند کر دیا،جب ان قوتوں نے سعودی عرب کو دھمکی دی کہ سعودی عرب کو پتھر کے زمانے میں پھینک دیں گے تو ملک فیصل نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ
مجھے تمہاری ان دھمکیوں کی پروا نہیں میرے آبا و اجداد صحرا میں رہتے تھے ان کا گزر بسر اونٹنیوں کے دودھ پر ہوتا تھا اگر مجھے بھی فلسطین کی خاطر یہ قربانی دینی پڑی تو ہم یہ قربانی دیں گے،عزت اور شرف کے ساتھ بھوک بھی گوارا ہے.اس جنگ میں سعودی عرب اپنے افراد اور مال کے ساتھ شامل رہا،مغربی طاقتوں کو تیل بند کرنے سے سعودی عرب کو 350 ملین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا،اس جنگ میں سعودی عرب نے اسرائیل کے خلاف حملوں کے لئے اپنی سرزمین پیش کی،20 لڑاکا طیارے دیے،کئی شہزادے جن میں ملک سلمان،اور ملک فہد شامل تھے اس جنگ میں نفس نفیس شریک ہوئے.

1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی سعودی عرب اپنے تمام وسائل کے ساتھ شریک ہوا سعودی فوج کے آفیسر اور جوان اس جنگ میں شہید ہوئے،ان میں سعودی لیفٹننٹ راشد بن عامر الغفیلی کا بھی نام آتا ہے جس نے داد شجاعت
دیتے ہوئے درجنوں اسرائیلیوں کو مارا اور شہید ہوا.

1973ء کی جنگ میں سعودی عرب کی 3 ہزار فوج نے حصہ لیا اس بار سعودی عرب نے امریکہ کو بھی تیل کی سپلائی بند کر دی،امریکی وزیر خارجہ بھاگتے ہوئے سعودی عرب پہنچا کہ ہمیں دیگر مغربی ممالک سے استثنی دیں لیکن سعودی عرب نے ماننے سے انکار کر دیا.

اگر سعودی عرب کے سیاسی کردار کی بات کریں تو سعودی عرب نے اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر مسئلہ فلسطین کو اٹھایا،فلسطینیوں کی بھرپور وکالت کی.

1979 میں امریکہ نے معاہدہ کیمپ ڈیوڈ کرایا مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا تب سعودی عرب نے مصر سے سفارتی تعلقات ختم کیے اور 8 سال تک مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع رکھے صرف فلسطین کی وجہ سے.

فلسطینی قوم کے لئے مالی امداد اور تعاون کی بات کریں تو سعودی عرب ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے اپنے دروازے فلسطینوں کے لیے کھول دیے.

لاکھوں فلسطینی سعودی عرب میں مقیم ہیں صرف جدہ شہر میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں.

بلا مبالغہ اگر کسی ملک نے سب سے بڑھ کر فلسطینوں کی مالی مدد کی ہے تو وہ سعودی عرب ہے،تفصیل بہت لمبی ہے
صرف پچھلے پندرہ بیس سال کے اعداد و شمار آپ کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں.

2009 میں جب غزہ کا محاصرہ کیا گیا اور ساری دنیا زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی تھی سعودی عرب نے آگے بڑھ کر 1 ارب ڈالر کی فوری امداد کر دی،سعودی قوم نے جو رقوم اور امداد بھیجی وہ اس سے الگ ہے.

2013 میں جب فلسطین معاشی مشکلات سے دو چار تھا تب سعودی عرب نے 100 ملین ڈالر کی امداد کی.

2014 میں 500 ملین ڈالر کی امداد کی.

2016 میں 800 ملین ڈالر کی امداد.

غزہ میں فلسطینوں کو پھر سے آباد کرنے کے لئے سعودی عرب نے سب سے بڑا تاریخی پروگرام شروع کیا،اس پروگرام میں گھر،بازار، ہاسپٹلز،سکولز،مساجد کی تعمیر شامل تھی،یہ پروگرام تین مراحل پر مشتمل تھا،پہلے مرحلے میں
752 عمارتیں بنائی گئیں جن کے ساتھ تمام سہولیات تھیں،دوسرے مرحلے میں 760 عمارتیں جب کہ تیسرے میں 780 عمارتیں شامل تھیں،یہ پروگرام 2015 میں مکمل ہوا،اس منصوبے کی کچھ تصویریں پوسٹ کے ساتھ میں شامل کر دیتا ہوں.

اب آپ خود انصاف سے بتائیں کہ ایک ایسا ملک جو نہ تو ایٹمی طاقت ہے،نہ ہی اس کی کوئی مضبوظ فوج ہے وہ اس سے بڑھ کر کیا کر سکتا ہے؟

چند ماہ پہلے سعودی وزیر خارجہ نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا کہ ہم اسرائیل سے متعلق اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں اس میں کوئی تبدیلی روز اول سے کبھی نہیں آئی ہے.

لمحہ موجود تک سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کی پالیسی میں کوئی نرمی آئی ہے صرف اس مفروضے پر کہ آنے والے وقتوں میں شاید سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرے گا آپ نے پیشگی گالیاں شروع کر رکھی ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟

بات یہ ہے کہ ایک طبقہ جسے سعودی عرب سے مملکت توحید ہونے کی وجہ سے اللہ واسطے کا بیر ہے وہ دن رات پروپیگنڈے میں لگا ہوا ہے ،ان کو میرا کھلا چیلنج ہے کہ
آپ جن ممالک کی صبح شام وکالت کرتے ہیں مسئلہ فلسطین سے متعلق ان کا سعودی عرب سے بڑھ کر عملی کام دکھائیں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فیس بک چھوڑ دوں گا.

بقلم فردوس جمال!

Leave a reply