سوال در سوال اور بال کی کھال، تحریر:عمر یوسف۔

0
56
lahore

بچپن تو سب کا ہی اچھا گزرتا ہے اور جوانی کے بعد عموما لوگ اپنے بچپن کو خصوصی یاد کرتے ہوئے جلتے دل کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ماضی بھی سب کو ہی خوب بھاتا ہے اور یاد ماضی بھی اکسیر کا کام دیتے ہوئے ذہن انسانی کو تسکین بخشتی ہے ۔ ہم نے بھی بچپن سے ہی جن رسالوں اور کتابوں کو پڑھا ان میں بھی ماضی بڑا خوشگوار کرکے پیش کیا گیا ۔ گویا ہمیں شروع سے ہی یہ سکھایا گیا کہ گزرا وقت اچھا ہوتا ہے ۔ رہی سہی کسر بڑے بوڑھوں نے نکال دی جنہوں نے حال کی خوب خبر لی اور ماضی کی تعریفات میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔ عموما یہ لوگ یوں کہتے نظر آتے ہیں کہ "ہون تے زمانہ ٹھیک ای نئی ریا ساڈے ویلیاں وچ تے بہاراں سی”
ابھی وقت اچھا نہیں رہا ہمارے وقتوں میں تو خوب بہاریں ہوتی تھیں ۔
پھر ہم نے نفسیات پڑھی جس میں یہ بتایا گیا کہ یاد ماضی کی خوسنمائی دراصل انسان کے نفسیاتی واہمے ہیں اور وقت سارے ہی خوب صورت ہوتے ہیں ۔ انسان دراصل آرام پسند ہے اور اس کا ماضی اور بچپن بے فکری میں گزرتا ہے اسی نسبت سے جب حال کی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خوشحال ماضی کو یاد کرکے روتا ہے ۔
اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد ہم اس قابل ہوگئے کہ سبھی وقتوں کو اچھا کہنے لگے اور ساتھ ساتھ ماضی کی یاد کو ایک فضول چیز سمجھنے لگے ۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ پھر نفسیات نے انکشاف کیا کہ ماضی کو یاد کرنا انسان کی ڈپریشن کو کم کرتا ہے ۔ ایک بار پھر نئے مخمصے اور عجیب صورت حال تھی ۔ اور پھر سائنس نے رہی سہی کسر نکال دی ۔ اور انسان کے تمام جذبات کو کیمیکل ری ایکشن کا نام دیا ۔ اگر کیمیکل ری ایکشن ہی ساری مصیبتوں کی جڑ ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ حقیقت کچھ نہیں ہے ۔ اور ان ری ایکشنز کو میڈیسن کے ذریعے سے بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ ادبی، نفسیاتی اور سائنسی انکشافات کے بعد صورت حال یہ ہے کہ ادب کی بنیاد پر ہم ماضی کو یاد کرتے ہیں تو خیال آتا ہے نفسیات کی رو سے ماضی کو یاد کرنا فضول بات ہے اور پھر نفسیات ہی نفسیات کا رد کرتی ہے کہ ماضی کو یاد کرلینا بھی اچھی بات ہے اور اگلے ہی لمحے ہمیں خیال آتا ہے کہ سائنسی رو سے تو ہمارے وجود اقدس میں کیمیکل ری ایکشن ہورہے ہیں جس کی بنیاد پر ہمیں اداسی محسوس ہورہی اور جذبات کا حقائق سے نہیں بلکہ جسم سے تعلق ہے ۔ ایک کے بعد ایک سوال اور خیال کے بعد خیال ہمیں مزید چکرانے والے ہی ہوتے ہیں کہ ہم ان سوالوں اور خیالوں کو چکر دے کر کوئی کتاب کھول کر نئے خیالات کی جستجو میں لگ جاتے ہیں ۔
ماضی بھی اچھا ہے لیکن ماضی کی حسین یادوں کو سوچا نہیں جاسکتا ۔ حال بھی ڈستا ہے لیکن حال کے زہریلے پن سے بھاگا نہیں جاسکتا۔ ایک شعر کے مصداق حالت کچھ یوں ہے کہ ؛
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم
نہ خدا ملا نہ وصال صنم

Leave a reply