معروف شاعر سید اعجاز علی رحمانی

0
62

کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو ترے نام چھوڑ آیا ہوں

نام سید اعجاز علی رحمانی اور تخلص اعجاز ہے۔ 12 فروری 1940ء کو علی گڑھ میں پید اہوئے۔ آپ کے والدہ اور والد کا کم عمری میں انتقال ہوگیا ، اس وجہ سے پرائمری اور دینی تعلیم علی گڑھ میں حاصل کرسکے۔ 1954ء میں پاکستان آگئے۔ کراچی آنے کے بعد ادیب اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کیے اور ابراہیم انڈسٹری ، عثمان آباد کراچی میں ملازم ہوگئے۔

اپنے ایک عزیز فضا جلالوی کے ایما پر قمر جلالوی کے شاگرد ہوگئے۔ مقامی روزنامے میں روزانہ قطعات لکھتے رہے۔ ایک نعت گو کی حیثیت سے انھیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’اعجاز مصطفی‘‘، ’’پہلی کرن آخری روشنی‘‘(نعتیہ مجموعے)، ’’کاغذ کے سفینے‘‘، ’’افکار کی خوشبو‘‘، ’’غبار انا‘‘، ’’لہو کا آبشار‘‘، ’’لمحوں کی زنجیر‘‘(غزلوں کے مجموعے)، ’’چراغ مدحت‘‘، ’’جذبوں کی زبان‘‘، ’’خوشبو کا سفر‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:311،26 اکتوبر 2019ء کو کراچی میں وفات پا گئے-

غزل
۔۔۔۔۔
اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا
فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا
پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پر
سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا
ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے
خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا
میں سوچ رہا ہوں یہ سر شہرِ نگاراں
یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا
اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے
حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا
اک عمر سے بے نور ہے یہ محفلِ ہستی
اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا

غزل
۔۔۔۔۔
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
دیا جلا کے سر شام چھوڑ آیا ہوں
کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو ترے نام چھوڑ آیا ہوں
ہوائے دشت و بیاباں بھی مجھ سے برہم ہے
میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ آیا ہوں
کوئی چراغ سر رہ گزر نہیں نہ سہی
میں نقش پا کو بہر گام چھوڑ آیا ہوں
ابھی تو اور بہت اس پہ تبصرے ہوں گے
میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں
یہ کم نہیں ہے وضاحت مری اسیری کی
پروں کے رنگ تہہ دام چھوڑ آیا ہوں
وہاں سے ایک قدم بھی نہ جا سکی آگے
جہاں پہ گردشِ ایام چھوڑ آیا ہوں
مجھے جو ڈھونڈھنا چاہے وہ ڈھونڈھ لے اعجازؔ
کہ اب میں کوچۂ گمنام چھوڑ آیا ہوں

اشعار
۔۔۔۔۔
ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے

تالاب تو برسات میں ہو جاتے ہیں کم ظرف
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا

وہ ایک پل کی رفاقت بھی کیا رفاقت تھی
جو دے گئی ہے مجھے عمر بھر کی تنہائی

گزر رہا ہوں میں سودا گروں کی بستی سے
بدن پہ دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے

فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا

جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورج
اسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے

Leave a reply