اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پیر کو بینکوں کے نمائندوں کا اجلاس طلب کیا ہے، تاہم اجلاس کا ایجنڈا ابھی سامنے نہیں آیا-

کچھ بینکاری ذرائع کا ماننا ہے کہ مرکزی بینک بینکوں کو ڈالر ریٹ مزید کم کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے، جب کہ دیگر کو توقع ہے کہ درآمد کنندگان کو درپیش مسائل پر بات ہو گی درآمدات کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) اکثر اس وقت کھولے جاتے ہیں جب جہاز پاکستان پہنچ جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ بکنگ کے وقت کھولے جائیں، اس عمل سے سود کی ادائیگی سے بچا جاتا ہے، لیکن ڈالر کی اچانک طلب میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے اسٹیٹ بینک کے لیے شرح تبادلہ میں استحکام رکھنا مشکل ہو جاتا ہےایک کرنسی ماہر نے کہا کہ یہ ایک مسئلہ ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ اجلاس میں ڈالر کا ریٹ بھی زیر بحث آئے گا۔

راولپنڈی سے لاہور جانے والی بس ٹائر پھٹنے کے باعث الٹ گئی، 8افراد جاں بحق

برآمد کنندگان پیر کے اجلاس سے قبل فارورڈ مارکیٹ میں سرگرمی سے ڈالر فروخت کر رہے ہیں، اگر ایکسچینج ریٹ 282 روپے سے اوپر رہتا ہے تو برآمد کنندگان قلیل مدتی فارورڈ بکنگ جاری رکھیں گےماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے ڈالر کا ریٹ 282 روپے کے آس پاس مستحکم ہونے کی توقع ہے، جو ڈالر لیکویڈیٹی میں عارضی ریلیف دے سکتا ہےتاہم، ماہرین انتظامی اقدامات کی طویل مدتی پائیداری پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ڈالرز کی خریداری جاری رکھے گا، مالی سال 2025 میں اب تک مرکزی بینک مارکیٹ سے تقریباً 9 ارب ڈالر خرید چکا ہے تاکہ ذخائر کو مستحکم کیا جا سکے۔

واضح،رہےکہ،کرنسی اسمگلنگ کے خلاف نئے کریک ڈاؤن کے بعد روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہوا ہے، انٹربینک مارکیٹ میں ایک روپیہ 30 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں ایک روپیہ 50 پیسے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بینکاروں اور کرنسی ڈیلرز نے اس بہتری کو مارکیٹ کی بنیادی وجوہات کے بجائے انتظامی اقدامات کا نتیجہ قرار دیا۔

پاکستان میں پولیو وائرس ایک بار پھر خطرناک حد تک پھیلنے لگا

انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 284.80 روپے سے کم ہو کر 283.50 روپے پر آ گئی، جب کہ اوپن مارکیٹ میں یہ 286.50 روپے پر پہنچ گئی، یہ کریک ڈاؤن 23 جولائی کو اس وقت شروع کیا گیا جب یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ امریکی ڈالر افغانستان اور ایران اسمگل کیے جا رہے ہیں۔

Shares: