اسلام آباد: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر سماعت شروع ہوگئی-
باغی ٹی وی:سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ درخواستوں پر سماعت کررہا ہے جس کی سرکاری ٹی وی کے ذریعے براہ راست کوریج کی جارہی ہے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی آج کیس کا اختتام کریں، ایک کیس کو ہی لےکر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی مزید بات کرنا چاہے تو تحریری صورت میں دے دیں، آج اس قانون کا اثر بالخصوص چیف جسٹس، 2 سینئر ججز پر ہوگا، اختیارات کو کم نہیں بانٹا جا رہا ہے، 2 سینئر ججز کےساتھ ،اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسزپربھی ہوگا، کچھ ججز سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے کچھ ایسا نہیں سمجھتے، آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر وکلا ہیں، سب کو سنیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، خواجہ صاحب آپ اپنا دلائل کا حق محفوظ رکھیں۔
درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری کے دلائل
درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے ایک پڑھنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ نہ پڑھیے ہم پورا ایکٹ پڑھ چکے ہیں وکیل اکرام چوہدری نے مؤقف پیش کیا کہ اس قانون کو خاص وجہ سے بنایا گیا ہے، ایکٹ کو مخصوص شخص کے لیے بنایا گیا، ایکٹ کی سیکشن3 آئین اور سپریم کورٹ رولز کے متصادم ہے، پارلیمان نے اختیارات کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے۔چیف جسٹس نے وکیل اکرام چوہدری سے استفسار کیا کہ کیا آپ دلائل صرف نیوز رپورٹس کی روشنی میں دے رہے ہیں، وہ خبریں نا پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نا کریں، میڈیا موجود ہے وہاں جا کر سیاست کریں، قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا۔جس پر وکیل اکرام چوہدری نے بتایا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کارروائی کا ریکارڈ ہی نہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاآپ نے معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا؟ وکیل اکرام چوہدری نے جواب دیا کہ نہیں میں نے ریکارڈ کے لئے خط نہیں لکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ اور جوڈیشری الگ الگ ادارے ہیں،آپ نے خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ دلیل سنے۔وکیل اکرام چوہدری نے مؤقف اختیار کیا کہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قوم کے نمائندے ہیں نہ ہی ہم، اس لئے اپنی بات کریں، اخبار میں آنے والی خبریں ہوسکتا ہے درست نہ ہوں، اپنے کیس تک خود کو محدود رکھیں،وکیل اکرام چوہدری نے ایک بار پھر خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم چاہتے تھے چیف جسٹس کو طلب کیا جائے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایسی بات بالکل نہ کریں، جس کی بات کررہےہیں انہیں آپ نےفریق ہی نہیں بنایا، عدالت کو سیاسی تقریر کیلئے استعمال نہ کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی خیال ہے اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آگئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کرونگا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے، حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتا تھا یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہےتوبات ختم ہوگئی، آپ کی دلیل ہےکہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائےتوٹھیک ہے، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں توکیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یالوگوں کے لیے ہے؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہےکہ اس کا ہرصورت دفاع کرناہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لیےنہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں، اگرکل پارلیمنٹ قانون بناتی ہےکہ بیواؤں کےکیسزکو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون سازی انصاف دینےکا راستہ ہموار اور دشوارکررہی ہے تویہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اورسے بھی ہے؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں، اگر آپ نے اپنےمعلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تویہ دلیل مت دیں، آپ نے خود اسپیکرکو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں پوری سپریم کورٹ بیٹھ کربے بنیاد دلیل سنے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل اکرام چوہدری کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے بہت محنت کی ہے چوہدری صاحب، جس کتاب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، عدلیہ حکومت کا ذیلی محکمہ نہیں۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کتاب پہلے مارشل لاء کے بعد لکھی گئی، سپریم کورٹ نے اس مارشل لاء کی توثیق کی، کیا یہ کتاب مارشل لاء کے اثر میں لکھی گئی تھی۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ لفظ کا مطلب عدلیہ کو محکمہ کہنا نہیں ہے، ہر ملک کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ثابت کردیں کہ کیسے یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے، 45 منٹ سے آپ کو سن رہے ہیں، اب دلائل ختم کیجیے، سننا تو آپ کو پورا دن چاہتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں، کوئی دلیل رہ جائےتوتحریرجمع کرائی جاسکتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس مظہرصاحب کے یہ بتادیں کون سی آئینی شق متاثر ہوئی، یہاں دو سوالات اٹھتے ہیں، کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کی مجاز ہے، بتائیں کہ کون سی دفعہ کس آئینی شق سے متصادم ہے، ایک سوال اہلیت اور دوسرا تضاد کا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ جتنا باریکی میں جائیں گے زیادہ وقت لگے گا، اس کیس نے آج کے بعد نہیں چلنا، جتنا وقت آپ لیں گے باقی وکلاء کو کم ملے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ مان رہے ہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کیلئے با اختیار ہے، جسٹس اعجازالاحسن کے دوسرے سوال کا جواب دیں جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ کو مکمل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھاجو نہیں کیا، جسٹس اطہرمن اللہ نےریمارکس دیئے کہ انصاف تک رسائی کا حق دینا آئین کی بنیاد ہےکیا پارلیمنٹ قانون سازی کرنےکیلئےبا اختیار نہیں۔وکیل اکرام چوہدری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے ایمرجنسی میں آئینی شقیں معطل کی جا سکتی ہیں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اب آئینی شق کا کیا تعلق ہے جب قانون بن چکا۔ جسٹس سردارطارق نے ریمارکس دیے کہ کیا پارلیمنٹ قانون نہیں کر سکتی کوئی حوالہ تو دے دیں۔وکیل اکرام چوہدری نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے بنیادی حقوق کا تحفظ ضروری ہے، باقی دلائل تحریری طور پر جمع کرا دوں گا۔
درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری کے دلائل
درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری کے دلائل مکمل ہونے پر درخواست گزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف پیش کیا کہ تمام عدالتی سوالات کے جواب آئین میں موجود ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عائشہ ملک نے وکیل حسن عرفان سے استفسار کیا کہ آپ اب تک درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دے رہے ہیں، صرف یہ بتا دیں کہ کن دفعات سےآپ متفق یا مخالف ہیں؟-وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں آئین میں ترمیم کر دی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کیلئے قانون سازی نہیں ہوسکتی، درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ میرا مؤکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔ جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے، پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے آگے نکل چکے ہیں، انصاف تک رسائی کیلئےبنیادی شرط آزادعدلیہ ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟ وکیل حسن عرفان نے مؤقف پیش کیا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا، پارلیمان سپریم ضرورہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے، اسے مدنظر رکھیں، جب مارشل لا لگتا ہے سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، مارشل لا لگے تو حلف کو بھول جایا جاتا ہے، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے، یہاں مارشل لا نہیں ہے، ماضی میں وکلاء 184تین کے بے دریغ استعمال پر تنقید کرتے رہے، آپ کے بطور شہری اس ایکٹ سے کون سے حقوق متاثرہوئے، کیا آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں۔
اس کمرے میں بہت سی تصاویر لگی ہیں جو مارشل لاء آنے پر حلف بھول جاتے ہیں،پارلیمنٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار بڑھا دیا گیا، کیا آپ کا موقف یہ ہے اپیل کا حق نہ ہو بس سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ حتمی ہو، وکیل حسن عرفان نے کہا کہ میرا یہ موقف نہیں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی، ماضی میں وکلاء سپریم کورٹ کے 184 تین کے بے دریغ استعمال پر بہت تنقید کرتے رہے، سپریم کورٹ کے 184 تین کے استعمال سے ماضی میں لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے،نظرثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ وکیل حسن عرفان نے کہا کہ اس سے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہوگا کل کو سماجی و معاشی اثرات مرتب ہوں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت نے کئی بار مارشل لاء کی توثیق کی ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق کو پارلیمنٹ کیوں نہیں بدل سکتی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ نظر ثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟ وکیل حسن عرفان نےکہا کہ قانون کی رسائی کا حق متاثر ہو گا کل کو سماجی و معاشی اثرات مرتب ہوں گے،جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا ہارلیمان کی اچھی نیت پر اختیار سے کیا گیا تجاوز درست مانا جا سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی سوال یہ نہیں اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے یا نہیں،سوال یہ ہے کہ اپیل کا حق کس نے کیسےدینا ہے، آرٹیکل 184/3 میں اپیل نہیں دی گئی تو آئین کی منشا نہیں تھی، جاب اگر یہ منشا ہے تو آئین کی ترمیم سے ہی کیا جا سکتا ہے،اس طرح تو آئین کو ایک طرف رکھ کر کہہ دیں قانون کی پاور سے چار اپیلوں کا حق دے دیتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی تھی، کیا آپ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟ حسن عرفان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے سے متفق نہیں،
پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ کیا پارلیمان نے اچھا قانون نہیں بنایا کہ ہم اس فیصلے کو واپس لے سکیں؟ ججز نے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کیساتھ کھلواڑ کی اجازت دی، سپریم کورٹ بار کہتی تھی کسی ڈاکٹرائن کی وجہ سے مقدمات مقرر نہیں ہوتے، کیا ڈاکٹرائن آئین اور قانون کے مطابق تھی؟آپ کہتے ہیں بس فرد واحد کا اختیار کم نہ ہو، فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے، مارشل لاء لگتا ہے تو ملک فرد واحد ہی چلاتا ہے،ہم آپس میں تین لوگ فیصلہ کریں یا پانچ کریں آپکو کیا مسئلہ ہے؟پارلیمان کو احترام دینا ہوگا، مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں، مولوی تمیز الدین کیس سے شروع کریں یا نصرت بھٹو کیس سے،انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے،
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے مارشل لاء کو سپریم کورٹ نے اپیل میں درست قرار نہیں دیا، سپریم کورٹ غلطی پر مستقبل میں اس کی درستگی کر سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کر سکتا ہے، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو اختیار دیتا پے کہ چیف جسٹس کے اختیارات لو ریگولیٹ کر سکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریگولیٹ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان کا تحریری آئین ہے ، ایک شخص آیا اور کہا گیا کہ ٹھیک ہے آئین کو روند دیں، جب بعد میں کوئی وضاحت آئے گی تو فیصلہ کریں گے، کبھی سپریم کورٹ نے کہا مارشل درست تھا اور کبھی کہا غلط تھا، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ہم جنگل کے بادشاہ ہیں چاہے انڈے دیں یا بچے دیں،وکیل حسن عرفان نے کہا کہ اصل سوال عدالت نے حل کرنا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم نے ہی کرنا ہے تو آپ بیٹھ جائیں ہم خود دیکھ لیتے ہیں ،چیف جسٹس کے ریمارکس پرکمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے
جسٹس امین الدین نے کہا کہ کیا اہلیت نہ رکھنے کے باوجود پارلیمنٹ قانون بنائے تو اسے نیت اچھی ہونے کی بنا پر درست قرار دیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ظفر علی شاہ کیس میں ایک فرد کو تمام اختیارات دے دیئے،کیا سپریم کورٹ نے فرد واحد کو اختیارات دے کر اچھا کام کیا،ریکوڈک کو دوبارہ کھولنے کے لیئے ایڈوائزری اختیارات کے تحت استعمال کیا گیا ،مولوی تمیز،نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے کہا فرد واحد جو آئین سے کھلواڑ کرنا چاہے وہ کر لے ،ہمیں پارلیمنٹ کی قدر کرنی چاہئے ،ہمیں پاکستان میں ائین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تاریخ کو نہیں بھولنا چایئے،فرد واحد کا اختیار تباہی پھیلاتا ہےصرف چیف جسٹس کا فائدہ نہیں بلکہ لوگوں کے فائدے کی بات کرنی چاہیے ،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وکیل صاحب، آپ سے جو کہا جا رہا ہے آپ آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں، آرٹیکل 191 کا اہم آئینی سوال ہمارے سامنے ہے، کیا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کرنے کا اہل بناتا ہے؟ جواب دے دیں پلیز اس کا، آرٹیکل 191 میں سبجیکٹ ٹو لاء کا کیا مطلب ہے یہ بتا دیجیے،وکیل حسن عرفان نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں تو ابہام ہے یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آرڈر 11 کہتا ہے کہ چیف جسٹس کا اختیار ہے جو اس قانون کا سیکشن 2 تین ججز پر تقسیم کر رہا ہے، ایکٹ کے سیکشن 2 اور سپریم کورٹ رولز میں تضاد آ چکا، پارلیمنٹ کی قانون سازی سے بنا تضاد کیسے حل ہو گا؟وکیل حسن عرفان نے کہا کہ یہ تضاد حل کرنا تو مشکل ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 1956 کے آرٹیکل 177 اور 1973 کے آرٹیکل 191 میں فرق ہے؟قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو ختم نہیں کیا جا سکتا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ باز محمد کاکڑ کیس میں سپریم کورٹ واضح کہہ چکی کہ آئین کے تحت بنے رولز کو سادہ قانونی سازی سے ختم نہیں کیا جا سکتا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 1956 کے رولز کو 1973 کے آئین میں ختم نہیں کیا گیا تھا،چیف جسٹس نے وکیل حسن عرفان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہاں ناں کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دنیا میں پارلیمنٹ کے قانون سے بالا کوئی رولز ہو سکتے ہیں؟ دنیا کی کوئی مثال ہو تو دے دیجیے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آرٹیکل 191 کے تحت غیر آئینی ہو نہیں سکتے، وکیل حسن عرفان نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ پر قانون سازی کی پابندی نہیں ہے تو اجازت بھی نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہیں بار بار بات نا دہرائیں، یہ ایکٹ اپیل کا حق بھی دے رہا ہے اس پر اپنی رائے دیجیے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت اختیار پہلے سے سپریم کورٹ کے پاس ہے، پارلیمنٹ نے اس اختیار کو بڑھایا؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آئین ساز سمجھتے کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل ہونی چاہئے تو آرٹیکل 185 میں شامل کر دیتے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو مسابقتی کمیشن کے قانون میں اپیل کا حق کیسے دے دیا گیا تھا؟ وکیل حسن عرفان خان کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل شروع ہو گئے،
وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ فیڈرل قانون سازی فہرست کے علاوہ کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی،چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازی کی لسٹ میں سپیس پروگرام اور مصنوعی ذہانت کا ذکر ہے نہ ہی سوشل میڈیا کا، کیا پارلیمان سپیس پروگرام کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتی؟ اگر قانون سازی ہوتی ہے تو پارلیمان کونسا اختیار استعمال کرے گی؟ عذیر بھنڈاری کی جانب سے امریکہ عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ امریکی عدالت کو چھوڑیں اپنے آئین کی بات کریں، وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ جناب میں سپیس پروگرام کے حوالے سے کیس تیار کرکے نہیں آیا، دو سماعتوں سے میں سن ہی رہا ہوں اب آپ بھی مجھے بولنے دیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں میں معذرت خواہ ہوں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بناتی ہے جو سپریم کورٹ رولز سے مطابقت نہیں رکھتا، ایسی صورت میں قانون کی بالادستی ہوگی یا رولز کی؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسی صورت میں رولز بالادست ہوں گے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون حاوی ہوگا یا رولز، وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ میری نظر میں رولز کو اہمیت دی جائے گی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں رولز بائینڈنگ ہیں قانون نہیں،وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ رولز آئین کے تحت بنائے گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، پارلیمان نے آرڈیننس کے تحت 204 میں اپیل کا حق دیا ہے، کیا پہلے اس نکتے کی وضاحت کر دیں کہ اپیل کا وہ حق کیسے درست ہے اور یہ غلط، سپریم کورٹ نے 184/3 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا،آرٹیکل 204 میں کہاں لکھا ہے کہ اپیل کا حق حاصل ہوگا؟ وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں کہاں لکھا ہے کہ اس کا اطلاق قانون کے تحت ہوگا؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین سے ہٹ کر کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مسابقتی کمیشن قانون سمیت بہت سے قوانین آئین کے اندر نہیں تو انکا کیا ہوگا،آئین میں جو چیزیں نہیں کیا قانون سازی سے انکو شامل نہیں کیا جاسکتا؟،وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ اسپیشل ٹریبونل بنائے گئے ہوں تو ان کیخلاف اپیل دی جاسکتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نےکہا کہ کیا یہ آئین میں لکھا ہوا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں کچھ موضوعات پر قانون سازی کا حق دیا گیا ہے،آرٹیکل 191 میں قانون سازی کا اختیار کہیں نہیں دیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آرٹیکل 191 میں قانون کے تابع رولز بنانے کے الفاظ غیرموثر ہوجائیں گے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپکے دلائل مان لیں تو مسابقتی کمیشن ایکٹ میں اپیل کا حق بھی غیرآئینی ہے، وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ جو قانون عدالت میں زیر بحث نہیں اس پر رائے نہیں دوں گا،
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق ملنے سے تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہے؟پی ٹی آئی نے اپنا موقف ہارلیمان میں کیوں نہیں اٹھایا، وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ کسی سیاسی فیصلے کا دفاع نہیں کروں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سیاسی جماعت کے وکیل ہیں تو جواب بھی دینا ہوگا، وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ اسمبلی سے مستعفی ہونا سیاسی فیصلہ تھا،تحریک انصاف کے ہر اقدام کا ذمہ دار نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے تو کیا قیامت آ گئی؟ ہو سکتا ہے آپ پارلیمنٹ میں یہی خوبصورت دلائل دیتے تو آپ کی بات مان لی جاتی،میں اگر کہتا ہوں عزیر بھنڈاری ہمیشہ وقت ضائع کرتا ہے،میں عزیر بھنڈاری کو عدالت پیش ہونے سے روک دیتا ہوں تو آپ کیا کریں گے،اگر چیف جسٹس نے ایک فیصلہ کر لیا تو مطلب اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا، پارلیمنٹ نے دیکھا ہے کہ 184/3 کا غلط استعمال ہوا،از خود نوٹس کے غلط استعمال پر پارلیمنٹ نے اپیل کا حق دیا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلے درست نہیں ہوسکتے،اگر ہر کیس میں اپیل کا حق دے دیا جائے تو ہر بندہ اپیل لیکر آجائے گا،چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مثال دے دیں کہ دنیا کی کسی عدالت میں سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ باہر دنیا میں جانے کی کیا ضرورت ہے اپنے ملک کی مثال دیکھ لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ امریکہ اور ہماری عدالت میں ایک بنیادی فرق ہے کہ وہاں فل کورٹ بیٹھتی ہے، امریکہ میں تو غلامی تھی خواتین کو ووٹ کا حق برصغیر کے بعد ملا،ہم امریکہ سے زیادہ متاثر کیوں ہیں،امریکہ میں دو تین ججز کے بجائے فل کورٹ کیس سنتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ امریکہ کی عدالت میں ازخود نوٹس کا بھی تصور نہیں، وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ امریکہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہیں ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ خود 184 تین میں اپیل کا حق دے دے تو کیا ہوگا؟ وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پھر بھی اپیل ممکن نہیں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اس سے اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے،پارلیمنٹ اپیل کا حق دینے میں بااختیار ہے لیکن دینے کا طریقہ کار کیا ہو یہ مسئلہ ہے،جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اپیل کا حق اتنا ہی ضروری ہے تو تین رکنی کمیٹی کیسے اپیل کیلئے فیصلہ کرے گی؟ فل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کیسے ہوگی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اپیل کا حق مختلف ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنا اور بات ہے،
پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت کے طور پر ایکٹ سے فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟ وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے، مجھے ہدایات ہیں کہ میرا موکل شاید دوبارہ اقتدار میں آئے تو اس قانون سازی سے فرق پڑے گا،چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کے مقدمات میں ہدایات لینے کی اجازت نہیں آپ عدالت کی معاونت کیلئے ہیں،وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اسی کمرے میں ججز پر جسمانی حملے بھی ہوئے، آئین نے سپریم کورٹ کے تحفظ کیلئے آگ کی دیوار بنائی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئینی اداروں کو اپنے رولز بنانے کا حق حاصل ہے،عدلیہ پارلیمنٹ سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی، وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں کہاں لکھا ہے کہ مقدمات کیسے مقرر ہونگے؟قانون صرف بنچز تشکیل دینے کے حوالے سے ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمات مقرر کرنے کے لیے میرے دائیں بائیں بیٹھے فرشتے نظر رکھیں گے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور تمام ججز ہیں،چیف جسٹس رولز کے تحت ججز کو انتظامی امور سونپتے ہیں، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ تین رکنی کمیٹی بن گئی تو کیا ججز کے درمیانی برابری کا اصول ختم نہیں ہوجائے گا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ممکن ہے کل پی ٹی آئی اقتدار میں آئے تو پارلیمان کے ویژن کو کیوں چیلنج کر رہی ہے؟وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو پریکٹس اینڈ پروسیجر سے اچھا قانون آئینی طریقے سے بنائے گی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر تو ایک اچھا قانون ہے، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کسی صورت اچھا قانون نہیں ہے،
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سترہ ججز بھی یہی غلطیاں کرنی ہے تو پھر اپیل کا حق ہونا ہی چاہیے،بطور سیاسی جماعت اپ کو گھبراہٹ کیوں ہے،اپیل کا حق ملنے سے ہو سکتا ہے آپ کو فائدہ ہو، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ اسی عدالت پر حملہ بھی ہوا،چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے ایسی باتیں نہ کریں، وکیل پی ٹی ائی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر بھی حملے ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو بھی تحفظ دینا جانتے ہیں،مجھے بطورِ چیف جسٹس کہا جائے کہ رولز بنانے کے لیے فل کوٹ میٹینگ بلا لیں میں انکار کر دوں تو کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا، تعجب ہے کہ کسی نے اسلام پر بات نہیں کی،چیف جسٹس نا قابل احتساب کیسے ہو سکتا ہے، اگر میرا کنڈینکٹ بہت زیادہ نا قابلِ قبول ہو جائے تو کیا ہو گا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی مستقل نہیں ہوتی بلکہ مدت ملازمت کی ریٹائرمنٹ بھی ہے،اگر کسی کا کانڈیکٹ نا قابلِ قبول ہے تو وہ جلا جائے گا ،وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اگر نا قابل قبول کانڈیکٹ ہو تو اس کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بھی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ کا انتظار کریں،آپ نے مختلف عدالتی سوالات کا تحمل مزاجی سے جواب دیا،آئین میں لکھا ہے حاکمیت اللہ پاک کی ہے، قرآن پاک میں بھی مشاورت سے کام کرنے کے احکامات ہیں،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی مشاورت سے فیصلے کا کہتا ہے،
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی مزید سماعت جمعہ کو رکھ لیں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جمعہ کو سماعت نہ رکھیں، ہم سے مشاورت تو کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو مقدمہ آج ختم کرنا چاہتا تھا، پہلے وکلاء دلائل اپنا لیتے تھے اب ہر وکیل ٹی وی پر آنا چاہتا ہے،
زمان خان وردگ نے تحریری دلائل جمع کرائے، آئندہ سماعت پر مزید دو درخواست گزاروں اور سپریم کورٹ بار کے دلائل سنے جائیں گے، آئندہ سماعت پر سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو بھی سنا جائے گا
عذیر بھنڈاری نے کہا کہ مختلف قوانین کے تحت کی جانے والی تمام اپیلیں آئین کے تناظر میں ہی ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 199 میں اپیل کا حق لاء ریفارمز آرڈیننس کے تحت دیا گیا ہے، عذیر بھنڈاری نے کہا کہ لاء ریفارمز آرڈیننس آئین پاکستان سے پہلے کا ہے، الیکشن مقدمات میں اپیل آرٹیکل 225 کے تحت سپریم کورٹ آتی ہے، عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر برقرار رکھتی ہے تو اس دوران ہوئے فیصلوں کو تحفظ دیا جائے،سپریم کورٹ ماضی میں بھی کالعدم شدہ قانون کے تحت ہونے والے فیصلے برقرار رکھ چکی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا موجودہ کیس میں قرآن شریف سے مدد لی جا سکتی ہے؟ قرآن پاک بھی مشاورت سے فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے، میں اپنے طور پر ساتھیوں سے مشاورت کرکے فیصلے کر رہا ہوں، آئینی نکات پر پانچ رکنی بنچ بننے میں کیا برائی ہے؟ نبی کریم بھی ہر کام مشاور ت سے کرتے تھے، پارلیمان نے مشاورت کرنے کا کہ کر ہم پر کونسا حملہ کر دیا ہے، عذیر بھنڈاری نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بھی مشاورت سے ہی بنائے گئے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپنی مرضی چلائوں تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا، عذیر بھنڈاری نے کہا کہ چیف جسٹس مشاورت تمام ججز کیساتھ بھی کر سکتے ہیں،سپریم کورٹ اپنے رولز میں مقدمات مقرر کرنے اور کاز لسٹ کو بھی شامل کرے، تحریک انصاف کے وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل مکمل کر لیے
اس سے قبل کیس میں وفاقی حکومت نے جواب جمع کروا دیا ہے تحریک انصاف نے اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروادیں اٹارنی جنرل، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے ایکٹ کو برقرار رکھنے جب کہ درخواست گزاروں اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اپنے تحریری جوابات میں ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
اٹارنی جنرل نے ججز کے سوالات پر مبنی اپنے جواب میں کہا کہ 8 رکنی بینچ کی جانب سے قانون کو معطل کرنا غیر آئینی تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، قانون سے عدالتی معاملات میں شفافیت اور بینچز کی تشکیل میں بہتری آئے گی، مفروضے کی بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا-
مسلم لیگ (ن) اور (ق) نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے جواب میں کہا ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، سپریم کورٹ رولز 1980 کی موجودگی میں عدالت عظمیٰ سے متعلق پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی۔درخواست گزاروں کے وکیل خواجہ طارق رحیم اور امتیاز صدیقی نے درخواستیں منظور کرکے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
یاد رہے کہ اس ایکٹ کے خلاف سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے حکم امتناع جاری کیا تھا سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ 1 اور لارجر بینچ اس کیس کی 5 سماعتیں کرچکا ہے لارجر بینچ نے 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پرحکم امتناع دیا تھا، اس کے بعد 8 رکنی لارجربنچ نے 2 مئی، 8 مئی، یکم جون اور 8 جون کو مقدمے کی سماعت کی تھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر کہا تھا کہ جب تک بینچ کی تشکیل سے متعلق اس قانون کے بارے میں فیصلہ نہیں ہو جاتا،تب تک وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
واضح رہے کی سابق حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کوریگولیٹ کیا تھا، قانون کے تحت ازخود نوٹس، بینچز کی تشکیل اورمقدمات کی فیکسشن کا اختیار 3 سینئر ججز کی کمیٹی کو دیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا اورعدالت عظمٰی کی تاریخ میں پہلی بار 18 ستمبر کو سماعت کوبراہ راست نشر کیا گیا،یہ سماعت 6 گھنٹے سے زائد تک دکھائی گئی تھی۔








