سکوٹیاں اور ٹریفک پولیس
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
یہ کالم سکوٹی استعمال کرنے والے بچوں اور خواتین میں ٹریفک قوانین کی آگاہی کی کمی اور حکومتی غفلت کو اجاگر کرتا ہے۔ مصنف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سکوٹی کی تقسیم سے پہلے تربیت اور لائسنس کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے تھا، تاکہ بڑھتے ہوئے حادثات کی روک تھام کی جا سکے۔ ٹریفک پولیس اور متعلقہ اداروں کی فوری توجہ اس اہم مسئلے کی ضرورت ہے۔

پاکستانی معاشرہ پہلے ہی بے راہ روی کا شکار ہے۔ سگنل توڑنا، بغیر کٹ کے گاڑی موڑ لینا اور دورانِ سفر اشارہ نہ دینا، ہماری روزمرہ ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مثبت پہلو کم جبکہ منفی کرداروں کی کوئی کمی نہیں۔

ان ہی حالات میں آج کل گورنمنٹ کی سطح پر سکوٹیاں تقسیم کی جا رہی ہیں، جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی عورتیں اور بچے ان کے خریدار بن رہے ہیں۔ تاہم، سکوٹیاں تو فراہم کی جا رہی ہیں لیکن انہیں چلانے والے بچوں اور خواتین کے لیے کسی قسم کے مناسب حفاظتی یا تربیتی اقدامات نہیں کیے گئے۔

ہم نے ہمیشہ عوامی منصوبوں کو بغیر کسی منظم منصوبہ بندی یا حکمت عملی کے نافذ کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ منفی اثرات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہی حال سکوٹی چلانے والوں کا ہے۔ شہروں اور گردونواح میں حادثات کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بچوں اور خواتین کو ٹریفک قوانین اور ڈرائیونگ اصولوں سے آگاہی حاصل نہیں۔ نہ لائسنس، نہ تربیت اور نتیجتاً حادثات معمول بنتے جا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی سطح پر ان بچوں اور خواتین کی باقاعدہ تربیت اور آگاہی کے لیے پروگرامز ترتیب دیے جائیں، تاکہ حادثات میں کمی لائی جا سکے اور یہ عمل سست روی کا شکار نہ ہو۔

کاش سکوٹیاں تقسیم کرنے سے قبل ٹریننگ سیشنز کا اہتمام کیا جاتا اور باقاعدہ لائسنس جاری کیے جاتے۔ نرمی اختیار کی جا سکتی تھی، لیکن مکمل غفلت اختیار کرنا موجودہ حالات میں شدید نقصان دہ ہے۔ مگر افسوس، حالات اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتے ہیں ، وجہ وہی پرانی: ڈنگ ٹپاؤ پالیسی۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا؟

آئی جی پنجاب ٹریفک پولیس کو موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس جانب فوری توجہ دینی چاہیے۔ یقیناً وہ ایسا کریں گے۔ ممکن ہے کسی مصروفیت یا لاعلمی کے باعث تاحال اس مسئلے پر توجہ نہ دی جا سکی ہو، لیکن ہمیں امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

Shares: