سائفر کیس،دستاویزا ت کے مطابق سیکورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا،عدالت

سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کے حکم میں کل دن گیارہ بجے تک توسیع
0
180
imran

اسلام آباد ہائیکورٹ: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی.

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس گل حسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، عمران خان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے،،اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے،عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور لیگل ٹیم کے ارکان اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی عدالت میں موجود تھیں،

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ روسٹرم پر آ گئے،جج کی تعیناتی کے معاملے پر سائفر کیس میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور سلمان اکرم راجہ کے درمیان اہم مکالمہ ہوا، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں سینکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیدیا ، جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس عدالت کے سامنے ریکارڈ پیش کیا تھا ہم نے دستاویزات دیکھے ہیں تعیناتی کیلئے کارروائی کا آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہوا، وکیل عمران خان نے کہا کہ ہمیں تو وہ دستاویزات بھی نہیں دکھائے گئے،عدالت نے کہا کہ ہمارے ذہن میں بھی یہی سوال تھا لیکن دستاویزات دیکھنے کے بعد صورتحال واضح ہوئی، آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اپیل ناقابلِ سماعت ہونے کے اعتراض کا جواب دیں.

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 16 اگست کو اوپن کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کا ریمانڈ دیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے انکی عدم موجودگی میں ریمانڈ ہوا،بعد میں سائفر کیس کی جیل سماعت کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، 29 اگست کو سائفر کیس کی جیل سماعت کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، میڈیا کو عمران خان کا نام لینے سے بھی روک دیا گیا،یہ سب عمران خان کو عوام میں لانے سے روکنے کیلئے کیا گیا،شاہ محمود قریشی ریمانڈ کے وقت کمرہِ عدالت میں موجود تھے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپکے یہ دلائل بعد کے ہیں پہلے اپیل قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دیں،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائیں جس میں سپیشل رپورٹس بھی ہیں سی سی پی او کا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے سیکورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس لیٹر کا تب پتہ چلا ہے جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائی ہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ کا ذکر بھی موجود نہیں نا ہی وزارت داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر ہے ،اٹارنی جنرل کے دستاویزات کے مطابق سی سی پی او نے خط لکھا کہ عمران خان کو لاحق سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے ٹرائل جیل میں کیا جائے لیکن اس وقت تو ٹرائل شروع بھی نہیں ہوا تھا،

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ حکومت جیل ٹرائل کے لیے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کی درخواست آئے تو عدالت نوٹس کر کے دوسرے فریق کو سننے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے،سیکشن 9 کے تحت جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا سکتا،اِس سیکشن کے تحت عدالت کا وینیو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن جیل ٹرائل کا ذکر نہیں،یہ سزائے موت یا عمر قید کا کیس ہے اس میں سختی سے قانون کے مطابق چلنا چاہیئے، جسٹس ثمن رفعت امتیار نے استفسار کیا کہ اگر سیکیورٹی خدشات ہوں تو حکومت کو کیا کرنا چاہیئے تھا؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حکومت کو یہ معاملہ متعلقہ جج کے سامنے رکھنا چاہیئے تھا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ راجہ صاحب، آپ اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل دیں، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جج کی جانب سے دو اکتوبر کو لکھا گیا خط بھی پڑھنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے،جج نے اس خط میں پوچھا کہ کیا ملزم کو پیش کرنے میں کوئی مشکلات تو نہیں؟جج اس خط کے ذریعے پوچھ رہا کہ آپ مناسب سمجھیں تو جیل ٹرائل کے لیے تیار ہوں، جج نے کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا، وزارت قانون کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن بھی درست نہیں ، یہ بھی کنفیوژن ہے کہ جیل ٹرائل کا مقصد کیا ہے؟ ایسا سیکورٹی خدشات کے باعث ہے یا حساس کیس سے پبلک کو اس سے دور رکھنا مقصد ہے،اوریجنل آرڈر کے خلاف انٹراکورٹ اپیل قابلِ سماعت ہوتی ہے، سیکشن 9 سیشن عدالتوں کے وینیوز تبدیل کرنے سے متعلق ہے جیل ٹرائل کا نہیں لکھا ہوا ، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 14 کے حوالے سے پراسیکیوشن کی درخواست ٹرائل کورٹ نے مسترد کی ،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کے بعد ہم اٹارنی جنرل نے جوابی دلائل سنیں گے، عدالت کیس قابلِ سماعت ہونے پر اپنا مائنڈ کلیئر کرنا چاہتی ہے،یقین دہانی کراتے ہیں کہ آپ نے دلائل دینے ہوئے تو دوبارہ موقع دیا جائے گا، آپ تھوڑا وقفہ کر لیں ہم اٹارنی جنرل کو قابلِ سماعت ہونے پر سن لیتے ہیں

وکیل سلمان اکرم راجہ اپنی نشست پر بیٹھ گئے ،اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کا ٹرائل 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، اس سے پہلے کی تمام عدالتی کارروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سیکیورٹی تھریٹس سے متعلق رپورٹ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے رکھی گئی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں، وہ وہ رپورٹ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے نہیں رکھی گئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کس مواد کی بنیاد پر پہلا خط لکھا ؟ اگر میرٹ پر دلائل سنتے ہیں تو آپ کو اِس نکتے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ یہ بات عمومی طور پر پبلک ڈومین میں تھی اور عدالت کو بھی اس کا علم تھا،

جیل ٹرائل بھی ہو تو کم از کم جج تبدیل کیا جائے، عمران خان کے وکیل کی استدعا،سماعت میں وقفہ
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل سماعت کے نوٹیفیکیشنز جاری ہوتے رہے اور جج تیزی سے کاروائی آگے بڑھاتے رہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس اہم ترین معاملے میں ہماری درخواست پر کئی ہفتوں کیلئے فیصلہ محفوظ رکھا،سماعت مکمل ہونے کے ایک ماہ بعد تک فیصلہ محفوظ رکھا گیا ،اس دوران یہ سارے ایونٹس ہوئے جن کا ذکر کیا گیا ، ٹرائل کورٹ کی کارروائی بھی جاری رہی ،سائفر کیس میں پندرہ نومبر تک کی تمام کارروائی غیر قانونی تھی ،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں ابھی تک نہیں پتہ کہ سائفر کیس میں الزام کیا ہے؟ہم صرف جیل میں ٹرائل اور جج کی تعیناتی کے معاملے پر قانونی نکات دیکھ رہے ہیں ، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو بھی جیل ٹرائل دیکھنے کی اجازت نہیں ملی، پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے،میری استدعا ہو گی کہ اگر جیل ٹرائل بھی ہو تو کم از کم جج کو تبدیل کیا جائے،

کابینہ منظوری سے پہلے ہونے والا ٹرائل کالعدم قرار دیا جائے،وکیل عمران خان کی استدعا
سلمان اکرم راجہ نے 1947کے ایک مقدمے کا حوالہ دیا اور کہا کہ جیل ٹرائل کے قواعد پورے نہ کرنے پر جج کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیاگیا تھا ،عدالت نے قرار دیا کہ جیل ٹرائل جاری رہے لیکن کوئی اور جج کارروائی کو آگے بڑھا سکتا ہے ،عدالت نے نوٹ کیا کہ ہے کہ 25ستمبر کے نوٹیفکیشن میں وزارت قانون نے لفظ جیل شامل نہیں کیا ،عمران خان کے جیل ٹرائل کو اِن کیمرہ ٹرائل بنا دیا گیا ہے،اِس ٹرائل میں فیملی ممبرز کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس عدالت نے ایک سوال اپنے پہلے تحریری آرڈر میں بھی رکھا تھا،وفاقی کابینہ کی منظوری سے پہلے ہونے والے ٹرائل کا سٹیٹس کیا ہوگا؟آپ اپنے دلائل میں واضح کر دیں کہ آپ اس ٹرائل سے متعلق کیا چاہتے ہیں؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے پہلے ہونے والا ٹرائل خلاف قانون ہے، کابینہ منظوری سے پہلے ہونے والا ٹرائل کالعدم قرار دیا جائے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا آپ ڈکلیئریشن چاہ رہے ہیں؟پبلک کو عدالتی کارروائی سے باہر رکھنے کا اختیار متعلقہ جج کا ہے،اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ جج کی طرف سے پبلک کو باہر رکھنے کا کوئی آرڈر موجود نہیں،اٹارنی جنرل کے مطابق ایسا آرڈر نہ ہونے کے باعث اسے اوپن ٹرائل تصور کیا جائے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ میں پبلک کو ٹرائل سے باہر رکھنے کی درخواست دائر کی، جج نے آرڈر میں لکھا کہ ابھی تو پبلک کیس کی سماعت میں موجود ہی نہیں،جج نے لکھا کہ جب پبلک موجود ہوئی تو پھر اس معاملے کو دیکھیں گے،چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل فیملی اور پبلک کو دور رکھنے کیلئے ہی کیا جا رہا ہے،میڈیا،فیملی اور پبلک کو ٹرائل سے دور رکھنامحض بےضابطگی نہیں،استدعا ہے کہ پہلے ہو چکا ٹرائل کالعدم قراردیاجائے،عمران خان پر فرد جرم سے پہلے کچھ بہت اہم ہوا ، کچھ ایسا اہم ہوا کہ ہمیں دستاویزات تک فراہم نہیں کیے گئے، بغیر دستاویزات فراہم کئے فرد جرم عائد کی گئی اسے معمولی بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے،

سائفر کیس جیل ٹرائل اور جج تعیناتی معاملے میں اہم موڑ آ گیا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے رجسٹرار ہائیکورٹ سردار طاہر صابر کو طلب کر لیا ، رجسٹرار عدالت کے سامنے پیش ہو گئے، عدالت نے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ آپ سے صرف دو سوالات پوچھنے ہیں 20 جون 2023 کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزارت قانون کے سیکرٹری کے نام کا لیٹر ہے کیا جج کی تعیناتی کا یہ پہلا لیٹر ہے ؟ یا وزارت قانون نے پہلے ریکوئسٹ بھیجی؟ چیک کرکے بتائیں ، دوسرا سوال یہ ہے کہ جیل ٹرائل سے متعلق کسی بھی اسٹیج پر ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کو کبھی بتایا ہے چیک کرکے بتائیں ،

اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس اسپیشل کورٹس کی حالت زار پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب برہم
سائفر کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس اسپیشل کورٹس کی حالت زار پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب برہم ، عدالت نے اٹارنی جنرل منصور اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں اسپیشل کورٹس کا ایڈمنسٹریٹو جج تھا تو مجھے شکایات موصول ہوئیں تھیں ،جوڈیشل کمپلیکس اسپیشل کورٹس میں تعینات کردہ اسٹاف وزارت قانون کا ہے وہ اسٹاف نہ ججز کی سنتا ہے نہ وہ ججز ،اس اسٹاف کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لے سکتے ہیں وزارت قانون کے تعینات کردہ اس اسٹاف کو کم سے کم ان ججز کی تو سننی چاہیے بار بار ، بار بار وزارت قانون کو لیٹرز لکھے گئے لیکن وزارت قانون نے کچھ نہیں کیا ،اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے میں اس کو دیکھ لوں گا ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ تین احتساب عدالتیں گزشتہ حکومت کے دور سے خالی پڑی ہیں ، ہم نے تین ججز کی تعیناتی کا کہا لیکن وہ بھی نہیں لگائے گئے ، یہ جو کہہ رہے ہیں ہمارے پاس کنٹرول ہے یہ ایسے اپنا کنٹرول استعمال کرتے ہیں ، اگر آپ ان معاملات کو دیکھیں تو وفاقی دارالحکومت کی عدالتوں کے لیے بڑی سروس ہو گی ، اٹارنی جنرل نے حکومت کے سامنے معاملہ رکھنے کی یقین دہانی کروائی.

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کے حکم میں کل دن گیارہ بجے تک توسیع کردی ہے،عمران خان کی جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کل 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی.

سائفر کیس،لگی دفعات میں سزا،عمر قید،سزائے موت ہے،ضمانت کیس کا فیصلہ

سائفر کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم امتناع،اڈیالہ جیل میں سماعت ملتوی

سائفر کیس، شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد

اسلام آباد ہائیکورٹ کا سائفر کیس کی سماعت روکنے کا حکم

سائفر معاملہ؛ اعظم خان کے بعد فارن سیکرٹری بھی عمران خان کیخلاف گواہ بن گئے

سائفر کیس، عمران خان کو بیٹوں سے بات کروانے کی اجازت

واضح رہے کہ سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہو رہی ہیں، چند روز قبل اڈیالہ جیل کے باہر سے بارودی مواد بھی ملا تھا، عمران خان اور تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اوپن کورٹ میں ٹرائل کیا جائے، حکومت کا موقف ہے کہ ٹرائل جیل میں ہی ہو گا، اب تک عمران خان اوپن ٹرائل کے لئے تین درخواستیں دائر کر چکے ہیں

Leave a reply