امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے کولڈ وار کے دور میں کی گئی ایک انتہائی حساس اور خطرناک خفیہ کارروائی تقریباً 60 سال بعد منظرِ عام پر آ گئی ہے۔

امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 1965 میں سی آئی اے نے بھارتی کوہ پیماؤں کے تعاون سے ہمالیہ کی بلند چوٹی نندا دیوی پر چین کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کے لیے پلوٹونیم سے چلنے والا جاسوسی آلہ نصب کرنے کی کوشش کی تھی۔رپورٹ کے مطابق اس خفیہ مشن کا مقصد چین کی ایٹمی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور حساس مواصلاتی سگنلز حاصل کرنا تھا۔ نندا دیوی کی اسٹریٹجک جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے اسے اس مقصد کے لیے موزوں سمجھا گیا، کیونکہ یہ علاقہ چین کے ایٹمی اور عسکری مراکز کے قریب واقع ہے۔

امریکی اخبار کے مطابق مشن کے دوران شدید برفانی طوفان اور خراب موسم نے ٹیم کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا، جس کے باعث سی آئی اے کو یہ خفیہ آپریشن ادھورا چھوڑنا پڑا۔ کوہ پیما ٹیم جاسوسی آلہ چوٹی پر نصب کیے بغیر واپس لوٹ آئی۔ اگلے سال جب مشترکہ ٹیم دوبارہ اس مقام پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ مذکورہ آلہ برفانی تودے کے نیچے دب چکا ہے، جو آج تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔رپورٹ کے مطابق 1978 میں جب یہ راز فاش ہوا کہ سی آئی اے نے بھارتی سرزمین پر خفیہ طور پر ایسی کارروائی کی تھی، تو بھارت میں شدید عوامی غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔ اس انکشاف نے نہ صرف بھارتی سیاست میں ہلچل مچا دی بلکہ ملکی خودمختاری، سلامتی اور ماحولیات سے متعلق سنگین سوالات بھی اٹھائے گئے۔

امریکی اخبار کے مطابق آج بھی بھارتی سیاستدانوں اور ماحولیاتی کارکنوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ نندا دیوی کے علاقے میں دفن اس ممکنہ ایٹمی ڈیوائس کو تلاش کر کے محفوظ طریقے سے ہٹایا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلوٹونیم سے چلنے والا آلہ اگرچہ برسوں پرانا ہے، تاہم اس کی موجودگی ماحولیات، گلیشیئرز، آبی ذخائر اور مقامی آبادی کے لیے ممکنہ خطرہ بن سکتی ہے۔ماحولیاتی کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہ آلہ پگھلتے گلیشیئرز کے ساتھ حرکت میں آیا تو اس کے اثرات دریاؤں اور نیچے آباد علاقوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی لیے اس معاملے کو نہ صرف تاریخی بلکہ ماحولیاتی اور قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

Shares: