باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ اوربھی بہت دکھ ہیں ۔غلطی سے آپ کبھی اخبار اٹھا کر صرف جرائم کا صفحہ پڑھ لیں ۔ بس پھر آپ کانوں کو بھی ہاتھ لگائیں گے اور دعائیں بھی کریں گے کہ خدانخواستہ کبھی آپ یا آپکا جاننے والا اس سپچوئیشن میں نہ پھنسے ۔
مبشر لقما ن آفیشیل یوٹیوب چینل پر اپنے وی لاگ میں مبشر لقمان کا کہناتھا کہ بہرحال گزشتہ روز مجھےسے اخبار اٹھانے کی غلطی ہوگی اور سیدھا میں نے جرائم کا صفحہ کھول لیا کہ دیکھوں توصحیح ملک میں چل کیا رہا ہے پھر کیا تھا ۔ وہ وہ انکشافات ہوئے کہ کرکٹ میں ہار ، بجٹ ، سیاست کے مسائل یہ سب کچھ بہت چھوٹا لگنے لگے اور اصل بڑے مسائل یہ معاشرتی مسائل لگنے لگے ۔ بہرحال ایک اسٹوری تو میں نے کئی دنوں سے سن رکھی تھی کہ کراچی میں سیکورٹی گارڈ نے ٹک ٹاکر کو گولی مار دی ۔ اب جناب معاملہ یہ ہے کہ یہ کیسسز بڑھنا شروع ہوگئے ہیں ایک واقعہ تو اسی ہفتے لاہور میں ہوگیا جہاں سیکورٹی گارڈ نے اپنی مالک کو گولی مار دی پھر ایک اور واقعہ کراچی میں پھر رپورٹ ہوگیا ۔ پتہ نہیں پولیس اور حکومت کب جاگیں گے ۔ کہ عجیب ملک ہے کہ لوگ اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہونے لگے ہیں ۔ ویسے اس گرمی کے موسم میں سخت چھبنے والے کپڑے پہن کر ،بھاری بھرکم بوٹوں کے ساتھ ڈیوٹی کرنا کسی غذاب سے کم نہیں ہے ۔ اور جو معاشی صورتحال چل رہی ہے ۔ پھر جو سیکورٹی کمپنیاں ان لوگوں کا استحصال کرتی ہیں وہ ایک علیحدہ کہانی ہے ۔ مگر اس سب کے باوجود کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی کی ناحق جان لے ۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی سے شروع کریں تو سخی حسن سرینا موبائل مارکیٹ کے سکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کر کے ٹک ٹاکر کو قتل کر دیا۔ اسی وقت پولیس نے گارڈ کو گرفتار کرکے کلاشنکوف اپنے قبضے میں لے لی ہے ۔ مقتول دو بچوں کا باپ اور بے روزگار تھا جو گزر بسر کے لیے ٹک ٹاک اور وی لاگنگ کرتا تھا۔ جو اسٹوری رپورٹ ہوئی ہے اس کے مطابق فائرنگ کا نشانہ بنائے جانے والا شخص مارکیٹ میں دکانداروں اور دیگر افراد سے پاک بھارت کرکٹ میچ کے حوالے سے ان کی رائے جاننے کے لیے ویڈیو بنا رہا تھا اور جاتے ہوئے اس نے سیکیورٹی گارڈ سے بھی میچ کے حوالے سے سوال کیا لیکن اچانک اس نے گالی دی اور اسلحہ لوڈ کرکے سعد کو گولی مار دی ۔ تاہم مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ بات چیت کے دوران ٹک ٹاکر کا رویہ اچھا تھا ایسی کوئی بات نہیں دیکھی جو ناگوار ہو۔مقتول سعد احمد کے بارے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی ملنسار اور لوگوں کے کام آنے والا تھا، مقتول والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور بفرزون کا ہی رہائشی تھا جس نے چند ماہ قبل ہی ٹک ٹاک اور وی لاگنگ کا کام شروع کیا تھا۔ پھر واقعہ کی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی ہے جس میں سیکیورٹی گارڈ احمد گل ولد زواتا خان کو انتہائی قریب سے سعد احمد کو گولی کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ سیکیورٹی گارڈ احمد گل نے ابتدائی طور پر بتایا کہ نوجوان ٹک ٹاک بناتے ہوئے میری طرف اشارے کررہا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ شخص ذہنی مریض ہو ۔ کسی کلچرل شاک کا شکار ہو ۔ مطلب کسی دور دراز کے ایسے علاقے سے ہو جہاں یہ چیزیں عام نہیں اور کراچی جیسے بڑے شہر اور وہ بھی موبائل مارکیٹ میں آکر یہ سب کچھ اس کے لیے قابل قبول نہ ہو ۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرے ایک دوست ہیں جو فوج میں ہیں تو جب ان کی لاہور میں پوسٹنگ تھی تو انھوں نے ایک دن بتایا کہ جو لوگ دور درازعلاقوں یا باڈر سے ڈیوٹی کرکے جب لاہور آتے ہیں تو اکثر سے سڑک پار نہیں کی جاتی ۔ ایکسڈنٹ سمیت اور بہت سے مسائل ہیں جن کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور سیٹ ہونے میں کئی ماہ لگتے ہیں ۔ بہرحال سعد احمد کے اہلخانہ احتجاج کر رہے ہیں کبھی پریس کلب جا رہے ہیں تو کبھی کہیں ۔ کہ ہمیں انصاف دیا جائے ۔ پر ان کو کون بتائے اور سمجھائے اس ملک میں عام بندےکو انصاف کہاں ملتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جس کمپنی کے لیے یہ سیکورٹی گارڈ احمد گل کام کرتا تھا اس کا لائسنس کینسل ہوتا ۔ جس دوکان پر یہ کھڑا ہو تاتھا اس کے مالک پر پرچہ ہوتا ۔ جبکہ ریاست سعد احمد کے اہلخانہ اور اس کمپنی سمیت دوکاندار سے اچھی خاصی رقم بطور ہرجانہ لے کر دیتی ۔ جبکہ قتل کرنے والے گارڈ کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی اور جلد سے جلد ۔ یہ نہیں کہ دس دس سال بیس بیس سال کیس سیشن کورٹس میں چلتا ۔ پھر ہائی کورٹس جاتا ، پھر سپریم کورٹ ۔ جو عام معمول ہے پاکستان میں ۔ اسی لیے میں نے کہا ہے کہ غریب اور عام بندے کے لیے کوئی انصاف نہیں ہے اس ملک میں ۔آپ دیکھیں جب چور اور ڈکیت آتے ہیں تو ان گارڈ ز سے گولی چلتی نہیں اور عام معصوموں کی یہ جانیں لے رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ تحقیقات میں گارڈ احمد گل کی سیکیورٹی کمپنی تعاون سے گریز کررہی ہے۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جواب نہیں دے رہے ،آفرین ہے ویسے پولیس والوں پر بھی یہاں ڈنڈا نہیں چلا رہے کوئی عام یا سادہ بندہ ہوتا توڈنڈے مار مار بندہ مار دیتے ۔اس کے گھر والوں کو اٹھا لیتے ۔ بڑے بندے کو دیکھ کر پتہ نہیں پولیس والوں کی کیوں سیٹی گم ہوجاتی ہے ۔ بہرحال سیکیورٹی کمپنی سے کسی بھی شخص نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا، بس اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ سیکیورٹی گارڈ احمد گل چار ماہ قبل سرینا موبائل مارکیٹ میں تعینات کیا گیا تھا۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واقعہ تو میڈیا پر آنے کے بعد نظر میں آگیا ۔ میں آپکو بتاؤں اور بھی بہت سے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔ جیسےکراچی میں ہی سیکورٹی گارڈ نے کچرا چننے والے بچے کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ پھر ماڈل کالونی کی رہائشی عمارت کے سکیورٹی گارڈ نے جھگڑے کے دوران ساتھی گارڈ پر گولی چلادی جس کے نتیجے میں دوسرا گارڈ زخمی ہوگیا۔اور دو دن پہلے لاہور کی غالب مارکیٹ میں سکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے اپنی ہی نجی سکیورٹی کمپنی کے مالک کو قتل کردیا ۔ جس کے بعد گارڈ کو گرفتار کرلیا گیا ۔ گرفتار گارڈ نے ابتدائی بیان میں بتایا کہ نجی سکیورٹی کمپنی کا مالک ملازمین پر سختی کرتا تھا۔پولیس نے سکیورٹی گارڈ مدنی جلیل کا بیان ریکارڈ کرلیا ہے ، جس میں سکیورٹی گارڈ نے نجی کمپنی کے مالک غلام رسول پر جادوٹونے کا الزام لگا دیا ہے ۔ کہ صبح اٹھتا تو منہ سے خون آتا اور کہیں بھی مجھے نوکری نہیں ملتی تھی۔ پانچ سال پہلے نجی کمپنی میں کام کرتا تھا مالک نے نکالا تو اسکے بعد کام نہیں ملا۔ پولیس نے ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد تفتیش کے لئے انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کردیا۔واقعہ کی کلوز سرکٹ فوٹیج میں دیکھا گیاہے کہ مقتول غلام رسول اپنی گاڑی پر دفتر کے سامنے پہنچ کر گاڑی کی ڈکی سے سامان نکال رہا تھا، اسی دوران سکیورٹی گارڈ مدنی نے آکر مقتول سے ہاتھ ملایا اور ڈکی سے مقتول کی گن نکال کر فائرنگ کر دی۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام واقعات اسی ماہ کے ہیں ۔ یقیقنا اس کے علاوہ بھی ہوں گے ۔ مگر آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری حکومت ہر معاملے میں سوئی ہوئی ہے ۔ کسی کواسلحہ دیکر کھڑے کر دینا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ سب سے پہلے ماہانہ بنیاد پر اس کا دماغی معائنہ بہت ضروری ہے ۔ پھر اسلحہ صرف ایسی جگہوں پر گارڈ نے پاس ہونا چاہیئے جہاں چوری ڈکیتی کا خطرہ ہو ۔یا کسی کی جان کو خطر ہ ہو ۔ جیسے بینک ، جیولری شاپس یا جہاں بہت زیادہ پیسہ کا لین دین ہوتا ہو ۔ یہ ہر جگہ گارڈ کو گن دیکر کھڑے کردینے کا کوئی تک نہیں ہے ۔ پھر وفاقی سمیت صوبائی حکومتوں نے عام بندے کی تنخواہ اب تو سینتس ہزار مقرر کردی ہے ۔ جوکہ مجھے معلوم ہے کوئی بھی سیکورٹی کمپنی گارڈ کو نہیں دیتی ۔ پھر اس سخت موسم میں گرم کپڑے، بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ کا نہ ہونا ، بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ۔ یہ سب عوامل مل کر کسی بھی جرم کا سبب بن سکتے ہیں یہ مت سمجھیں کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا اس کے پاس اسلحہ اور اس اسلحہ کا رخ وہ کب آپ کی طرف موڑ دے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ فورا ان سیکورٹی کمپنیوں کو پراپرریگولیٹ کیا جائے ۔ ان کے بھرتی کے نظام کی سخت سے سخت نگرانی کی جائے ۔ اور سخت چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے ۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ نقوی صاحب تو کرکٹ کے معاملہ میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو کیا معلوم کہ ملک میں چل کیا رہا ہے ۔ بہرحال کم ازکم صوبوں کو اس حوالےسے لازمی قانون سازی کرنی چاہیے ۔
شاہد خاقان عباسی کچھ بڑا کریں گے؟ن لیگ کی آخری حکومت
جبری مشقت بارے آگاہی،انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی لاہور میں میڈیا ورکشاپ
بہت ہو گیا،طوائفوں کی ٹیم، محسن نقوی ایک اور عہدے کےخواہشمند
قومی اسمبلی،غیر قانونی بھرتیوں پر سپیکر کا بڑا ایکشن،دباؤ قبول کرنے سے انکار
سماعت سے محروم بچوں کے والدین گھبرائیں مت،آپ کا بچہ یقینا سنے گا
حاجرہ خان کی کتاب کا صفحہ سوشل میڈیا پر وائرل،انتہائی شرمناک الزام
جمخانہ کلب میں مبینہ زیادتی،عظمیٰ تو پرانی کھلاڑی نکلی،کب سے کر رہی ہے "دھندہ”
شیر خوار بچوں کے ساتھ جنسی عمل کی ترغیب دینے والی خاتون یوٹیوبر ضمانت پر رہا
مردانہ طاقت کی دوا بیچنے والے یوٹیوبر کی نوکری کے بہانے لڑکی سے زیادتی