رات کے سناٹے میں اچانک شور اٹھا۔ پانی کی بے قابو لہروں نے گلیوں اور گھروں کو روند ڈالا۔ سانس لینے کا موقع تک نہ ملا؛ لمحوں میں بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ وہ منظر ایسا تھا جیسے قیامت اتر آئی ہو۔ مائیں اپنے بچوں کو چادر میں لپیٹ کر بھاگ رہی تھیں، مگر پانی کے تیز بہاؤ نے ان کے قدم اکھاڑ دیے۔ بوڑھے کسان اپنی زندگی کی کمائی بچانے کی کوشش کرتے رہے، مگر دیکھتے ہی دیکھتے کھیت، فصلیں اور مویشی سب سیلاب میں بہہ گئے۔

علی پور کی گلیاں، جو کل تک زندگی سے بھری تھیں، آج پانی، کیچڑ اور موت کے سناٹے میں ڈوبی ہیں۔ وہ کھیت جہاں فصلیں لہلہاتی تھیں، وہاں اب کھڑا پانی پڑا ہے اور کسان اپنی محنت آنکھوں کے سامنے ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔ جانور، جو کبھی روزگار کا سہارا تھے، کھیتوں میں ڈوب گئے۔ لوگ جانیں بچانے کے لیے دوڑے، لیکن نہ راستہ بچا اور نہ ہی کشتی دستیاب تھی۔ جو کشتیاں ملیں بھی تو وہ کشتی مافیا کے ہاتھ میں تھیں جنہوں نے کرایہ کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ غریبوں کی جان بھی یوں نیلام ہو گئی۔ کتنی مائیں اپنے بچوں کو بازوؤں میں اٹھائے مدد کے لیے چیختی رہیں، مگر کشتی والوں نے سننے تک گوارا نہ کیا۔

جلال پور پیر والا میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی۔ جب دریا کی لہر بے قابو ہوئی تو لوگ چھتوں پر چڑھ گئے۔ گھروں کے دروازے، کھڑکیاں اور دیواریں پانی نے نوچ لیں۔ بازاروں میں مایوسی کے سوا کچھ نہ رہا۔ وہ گھر جو برسوں کی محنت سے بنے تھے، لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ بچے چیختے رہے، عورتیں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی رہیں اور بزرگ زمین پر بیٹھ کر آنکھوں سے آنسو بہاتے رہے۔

یہ سیلاب صرف ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک سخت حقیقت بھی ہے۔ یہ چیخ کر بتا رہا ہے کہ لاہور کے ایوانوں سے جنوبی پنجاب کے دکھ سمجھے نہیں جا سکتے۔ فیصلے وہاں بیٹھے لوگ کرتے ہیں، جنہیں نہ یہاں کے دریاؤں کا شور سنائی دیتا ہے اور نہ ہی یہاں کے جنازوں کی سسکیاں۔ ہر بار یہی ہوا: پانی آیا، سب کچھ بہا لے گیا، اور پھر سب کچھ بھلا دیا گیا۔ مگر اس بار درد اور تلخ ہے—کیا جنوبی پنجاب کے لوگوں کا خون اتنا سستا ہے؟

لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ خیموں میں بچے بھوک سے بلکتے ہیں، عورتیں خالی برتن لیے کھڑی ہیں، اور مرد لاچارگی میں اپنی ہی زمین کو کوس رہے ہیں۔ پانی اتر بھی جائے گا مگر یہ زخم نسلوں تک رہیں گے۔ ہر بچہ جو آج خالی پیٹ سو رہا ہے، کل بڑا ہو کر پوچھے گا کہ ہمارے ساتھ انصاف کیوں نہیں ہوا؟

اب وقت صرف تعزیت کا نہیں بلکہ فیصلے کا ہے۔ جنوبی پنجاب کو اس کا حق دیا جانا چاہیے۔ ایک نیا صوبہ بنایا جائے تاکہ فیصلے وہ لوگ کریں جو اس مٹی کے باسی ہیں، جو ان دریاؤں کے کنارے رہتے ہیں، جو ہر سیلاب میں اپنے پیاروں کو دفناتے ہیں۔ یہ الگ صوبہ سیاسی نعرہ نہیں بلکہ بقا کی جنگ ہے۔

سوال یہی ہے: کتنی اور لاشیں، کتنے اور جنازے، کتنے اور گھر ڈوبیں گے، تب جا کر کوئی مانے گا کہ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے؟۔۔

Shares: