چترال ،باغی ٹی وی (گل حماد فاروقی)اقتدار میں آکر چترال کا نقشہ بدل ڈالیں گے۔ ماضی میں چترال کے عوام کو محتلف بہانوں سے دھوکہ دیکر ان سے ووٹ لیا گیا۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود
حکمرانوں اور منتحب نمائندوں کی غفلت کی وجہ سے چترال کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کی سڑکیں انسانوں کی سفر کے قابل نہیں ہیں، لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اگر مجھے موقع مل گیا تو چترال کا نقشہ بدل ڈالیں گے۔ ان خیالات کا اظہار این اے ون چترال سے قومی اسمبلی کی نشست کی امید وار سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کی جو جمیعت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر چترال سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
تحصیل تورکہو کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے عوامی اجتماعات سے اظہار خیال بھی کیا۔ ویر کوپ، شاہ گرام اور دیگر علاقوں کے لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا، جے یو آئی کے کارکنوں نے شہر سے باہر آکر ان کا استقبال کیا اور انہیں قافلے کی شکل میں جلسہ گاہ تک لے گئیے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ صوبائی نشست حلقہ پی کے ون کے امیدوار حاجی شکیل ، سابقہ امیر شیر کریم شاہ اور دیگر کارکن بھی موجود تھے۔
عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست کیلیے امیدوار سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ جب میں نے چترال کے بالائی علاقوں کا سفر کیا تو یوں لگا کہ یہاں کے لوگ اب بھی پتھر کے زمانے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں نہ بجلی ہے ، نہ پینے کاصاف پانی اور نہ بہترین سڑکیں۔ اس سڑک پر چند کلومیٹر کے سفر طے کرنے پرکئی گھنٹے لگتے ہیں اور گاڑی بھی اتنا خراب ہوجاتی ہے کہ اسے پہچاننا مشکل ہوجاتاہے ۔
انہوں نے کہا کہ چترال ایک سیاحتی علاقہ ہے جہاں قدرت نے بہت کچھ پیدا کیا ہے مگر بد قسمتی سے ماضی میں یہاں سے منتخب نمائندوں کی غفلت کی وجہ سے حکمرانوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے نظر انداز کیا۔
سینٹر طلحہ محمود نے کہا کہ میرا فلاحی ادارہ پہلے سے چترال میں خیر سگالی کے کام کرتا ہے جس میں قدرتی آفات کی صورت میں میں متاثرین کے ساتھ امداد کرنا، مریضوں کا مفت علاج کروانا، فری میڈیکل کیمپ لگانا، غریبوں میں مفت راشن اور ضروری سامان تقسیم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی نشست کیلئے دیگر جماعتوں کے امیدواروں نے میرے خلاف الیکشن کمیشن آپ پاکستان کے دفتر میں شکایت کی ہے کہ میں لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔ مگر آٹھ فروری کے بعد بھی اگر میں یہ امدادی سرگرمیاں جاری رکھوں تو پھر کہاں درخواست دیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر مجھے خدمت کا موقع ملا اور آٹھ فروری کو لوگوں نے مجھے بھاری اکثریت سے کامیاب کیا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا حق نہیں کھاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ بعض لوگو مجھ پر تنقید کرتے ہیں کہ میں نے چترال میں اس سے پہلے اسلئے امدادی سامان تقسیم کیا تھا تاکہ میں یہاں سے الیکشن لڑ کر کامیاب ہوجاؤں تو میرا ادارہ افغانستان، فلسطین، سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور دیگر ممالک میں بھی کام کرتاہے اور مصیبت کےوقت لوگوں کے ساتھ مالی طور پر امداد کرتا ہے وہاں سے میں کونسا الیکشن لڑرہاہوں۔
سینٹر طلحہ محمود نے کہا کہ حالیہ انتحابات میں کامیابی کے بعد میرا ارادہ ہے کہ یہاں کے خواتین کیلئے دو سو دستکاری مراکز کھولوں اسی طرح یہاں کی سڑکیں، پل اور راستے بناؤں۔ انہوں نے کہا کہ بعض ناقدین لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کررہے ہیں کہ میں الیکشن میں کامیابی کے بعد غائب ہوجاؤں گا۔ مگر یہاں سے نصرت بھٹو بھی تو کامیاب ہوئی تھی ۔ اب میں چترال سے کہیں نہیں جاؤں گا ،میں نے جغور میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا اور یہاں اپنے ویلفیر ٹرسٹ کا دفتر بھی کھول دیا۔
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ آپ لوگ اپنے حقوق کیلئے صحیح اور ایماندار نمائندہ کامیاب کریں تاکہ وہ صرف اسمبلی میں بیٹھ کر تنخواہ نہ لے اور ڈسک بجانے کے علاوہ اور کوئی کام نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آکر چترال کا نقشہ بدل ڈالیں گے۔ طلحہ محمود نے کہا کہ جب میں وزیر حج اور مذہبی امور تھا تو میں نے اربوں روپے حکومتی خزانے سے نکال کر حاجیوں کو واپس کیے جو ان سے زیادہ لیے گئے تھے۔
اس موقع پر سابق امیر شیر کریم شاہ اور دیگر رہنماؤں نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے ماضی میں منتخب نمائندوں پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ شہزادہ افتحار الدین، مولانا عبدالاکبر چترالی دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتحب ہوئے مگر انہوں نے چترال کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔
انہوں نے عبد الاکبر چترالی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے پانچ سال اسمبلی میں گزارے اپنی تنخواہ تو لیتا رہا مگر ووٹ لینے کے بعد لوگوں کو اپنا منہ بھی نہیں دکھایا اور اسمبلی ٹوٹنے کے بعد برائے نام افتتاح کرتے ہوئے اپنے نام کے بورڈ لگوائے مگر کام شروع نہ ہونے پر عوام نے ان بورڈوں کو بھی اکھاڑ کر پھینک دیا۔ تاہم جلسہ میں سابقہ ایم پی اے ہدایت الرحمان کو آنے نہیں دیا گیا کیونکہ پانچ سال بطور رکن صوبائی اسمبلی اس کی کارکردگی بھی نہایت مایوس کن تھی اسسلئے اسے جماعت کے اکابرین نے یہاں آنے سے منع کیا۔
انتحابی مہم کا آخری جلسہ شاہ گرام میں منعقد ہوا جہاں سینیٹر طلحہ محمود نے برملا کہا کہ اگر غریبوں کی مدد کرنا، خواتین کو سلائی کڑہائی مشین دینا، مریضوں کا مفت علاج کرانا، یتیموں کو مفت تعلیم دینا وغیرہ جرم ہے تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا اگر کسی میں دم ہے اور مجھے اس کام سے روک سکتے ہیں تو روک لے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں اگر عوام کو تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں تو یہاں کیوں نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لاہور کو بھی چترال کی طرح پسماندہ ہونا چاہیے بلکہ چترال کو بھی لاہور کی طرح ترقی یافتہ ہونا چاہیے جلسہ میں لوگوں نے ان کے حق میں نعرے بھی لگائے اور ان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اسے ضرور کامیاب کریں گے تاکہ چترال میں بھی ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاسکے۔
جلسہ استاد الحدیث فتح الباری کے دعاییہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔