پاکستان میں تمباکو نوشی کا سنجیدہ مسئلہ.تحریر:حنا سرور

3 دن قبل
تحریر کَردَہ
ecigrate

ہر سال 31 مئی کو تمباکو نوشی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ عوام میں تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے بارے میں آگاہی بڑھائی جائے اور اس عادت سے چھٹکارہ پانے کی تحریک دی جائے۔ اس دن کا مقصد صرف سگریٹ نوشی کی تباہ کاریوں کی نشاندہی نہیں بلکہ تمباکو کی صنعت کے حربوں کو بے نقاب کرنا بھی ہے جو اپنی منافع بخش مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے مختلف چالاکیوں اور نفسیاتی حربوں کا سہارا لیتی ہے۔

تمباکو صنعت نے سالوں سے اپنے نقصان دہ اثرات کو چھپانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ وہ صرف سگریٹ کی فروخت پر انحصار نہیں کرتے بلکہ نئے ذائقے، خوشبوئیں، اور دلکش پیکجنگ کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ "فلیورڈ” سگریٹ، ای سگریٹ، اور دیگر تمباکو مصنوعات نوجوانوں اور نئی نسل کے لیے تمباکو نوشی کو مزید پرکشش بناتی ہیں۔ یہ ایک منظم حکمت عملی ہے جو نہ صرف صحت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی سنگین نتائج کا باعث بنتی ہے۔پاکستان میں ہر سال تقریباً 1,60,000 سے زائد اموات تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہ تعداد حیران کن اور دردناک ہے۔ سگریٹ نوشی نہ صرف جسمانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ذہنی اور معاشرتی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ بہت سے لوگ اس عادت کی وجہ سے اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات کھو دیتے ہیں اور اپنی فیملی کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنی اور اپنے اہل خانہ کی صحت کے لیے سگریٹ نوشی کی عادت کو چھوڑ دیں۔
"تمباکو سے انکار، زندگی سے پیار” اور”سگریٹ سے جان چھڑائیں، صحت مند زندگی گزاریں” کا نعرہ ہر پاکستانی کے دل میں بسانا ہوگا۔پاکستان میں تمباکو نوشی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے، اگر ہم سب مل کر اس کے خلاف آواز بلند کریں اور اس بیماری کی لپیٹ سے نکلنے کی کوشش کریں۔ پاکستان میں موجودہ قوانین کے تحت سگریٹ کی پیکنگ پر گرافیکل ہیلتھ وارننگ لازمی ہے تاکہ صارفین کو سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جا سکے۔ لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ 286 غیر ملکی سگریٹ برانڈز بغیر گرافیکل ہیلتھ وارننگ کے فروخت ہو رہے ہیں، جو قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اس کی وجہ سے حکومت کو سالانہ تقریباً 300 ارب روپے سے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

تمباکو نوشی صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی بوجھ ہے۔ جب کمپنیاں قوانین کو توڑ کر اربوں روپے بچاتی ہیں اور عوام بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف بے حسی ہے بلکہ ظلم کے مترادف ہے۔تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے ہر فرد، تنظیم، اور حکومت کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر آگے آنا ہوگا۔ ہمیں تمباکو صنعت کے چالاک حربوں کو سمجھ کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا، تاکہ ہماری اگلی نسل صحت مند، خوشحال اور تمباکو سے پاک زندگی گزار سکے۔آئیں، اس عالمی دن پر عہد کریں کہ ہم خود بھی تمباکو نوشی چھوڑیں گے اور دوسروں کو بھی اس کا شعور دیں گے تاکہ پاکستان ایک صحت مند ملک بن سکے۔

Latest from معاشرہ و ثقافت

آسمانی شادی

غربت کی رسی سے خودکشی کرنے والے باپ کی بیٹی کے نصیب ظفریات کتاب کا حقیقت پر مبنی دل سوز مضمون: آسمانی شادی تحریر: