طالبان حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی پر کریک ڈاؤن مزید سخت کرتے ہوئے کئی صوبوں میں فائبر آپٹک کنکشن منقطع کر دیے ہیں۔ طالبان حکام کے مطابق یہ اقدام ملک میں ’برائی کے خاتمے‘ کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی ہدایت پر گزشتہ دو دن کے دوران متعدد علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہو چکا ہے، جس سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں۔صوبہ بلخ کے ترجمان عطااللہ زاہد نے تصدیق کی کہ صوبے میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ برائی کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے، تاہم رابطے کے لیے متبادل ذرائع فراہم کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق بلخ میں اب صرف ٹیلی فون نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ دستیاب ہے، جو غیر مستحکم اور اکثر معطل رہتا ہے۔ اسی نوعیت کی بندش بدخشاں، تخار، قندھار، ہلمند اور ارزگان میں بھی دیکھی گئی ہے۔
کاروباری حلقوں اور عوام کی تشویش
کابل میں ایک نجی انٹرنیٹ کمپنی کے ملازم نے بتایا کہ فائبر آپٹک افغانستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے لیکن اس پابندی کی اصل وجوہات واضح نہیں۔قندھار میں سنگ مرمر کے کاروبار سے وابستہ تاجر عطا محمد نے کہا کہ اگر دبئی اور بھارت کے کلائنٹس کو بروقت ای میل کا جواب نہ دیا جا سکا تو کاروبار بند ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پوری رات نہیں سو سکا۔یہ پابندی تاحال ننگرہار میں نافذ نہیں کی گئی، تاہم صوبائی ترجمان نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں یہ فیصلہ پورے افغانستان میں لاگو کر دیا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ حالیہ مطالعات سے ظاہر ہوا ہے کہ آن لائن ایپلیکیشنز نے معیشت، سماج، ثقافت اور مذہب پر منفی اثرات ڈالے ہیں اور معاشرے کو اخلاقی بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ 2024 میں طالبان حکومت نے 9 ہزار 350 کلومیٹر پر مشتمل فائبر آپٹک نیٹ ورک کو ایک ’ترجیحی منصوبہ‘ قرار دیا تھا، جو سابق امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کے دور میں تعمیر ہوا تھا۔ اس نیٹ ورک کو افغانستان کو دنیا سے جوڑنے اور غربت کم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا تھا۔
گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب، کچے کے علاقے زیرِ آب
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات
مشعال حسین ملک کا کشمیری رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کو شاندار خراجِ عقیدت