ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور اس کے اثرات صرف جسمانی صحت تک محدود نہیں بلکہ ذہنی صحت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے میل مین اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تازہ تحقیق کے مطابق دنیا کے 24 ممالک میں تیار کیے گئے 83 ہیٹ ہیلتھ ایکشن پلانز کا جائزہ لیا گیا جس سے انکشاف ہوا کہ ان میں ذہنی صحت کے خطرات یا اثرات کو یا تو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا یا اس پر ناکافی اقدامات تجویز کیے گئے۔
تحقیق کے مطابق 75 فیصد منصوبوں میں ذہنی صحت کا عمومی تذکرہ موجود ہے۔صرف 31 فیصد منصوبے ایسے ہیں جن میں گرمی کی شدت سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل، مثلاً خودکشی کے خطرات یا دماغی ایمرجنسیز کی نشان دہی کی گئی۔زیادہ تر منصوبوں میں عملی حکمت عملیاں اور بچاؤ کے اقدامات شامل نہیں۔
ماہرین کے مطابق گرمی کی شدت کے دوران ڈپریشن اور اضطراب میں اضافہ، نیند کی خرابی، معاشی دباؤ و بے گھری کا خطرہ اور سماجی تنہائی اور دماغی دباؤ جیسے اثرات نمایاں ہو سکتے ہیںیہ تحقیق ان ممالک کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے جہاں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جیسے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ۔
ماہرین کی رائے میں ان ممالک کو اپنے ہیٹ ایکشن پلانز میں فوری طور پر ذہنی صحت کے پہلوؤں کو شامل کرنا چاہیے اور ذہنی صحت کے ماہرین کی مشاورت سے جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔گرمی کے سیزن سے قبل عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں۔ذہنی و نفسیاتی مدد کے لیے خصوصی ہیلپ لائنز اور ہنگامی خدمات مہیا کی جائیں۔
تحقیق میں شامل ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اس دور میں ذہنی صحت کو نظر انداز کرنا ایک خطرناک غفلت ہے.صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی فلاح کو بھی پالیسی کا مرکزی حصہ بنانا ہوگا تاکہ مستقبل میں ان ماحولیاتی چیلنجز کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا جا سکے۔
گرمی کے دنوں میں پانی کا وافر استعمال کریں، نیند پوری کریں، خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کریں، اور اگر ذہنی دباؤ یا بے چینی محسوس ہو تو قریبی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات سے رجوع ضرور کریں۔
پی پی 52 ضمنی انتخاب: انتخابی مہم پر 30 مئی کی رات 12 بجے سے مکمل پابندی
وفاقی ترقیاتی بجٹ 2025-26، ایک ہزار ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان
مشاعرہ سے مکالمہ تک، ملی ادبی پنچائیت کا فکری و قومی کردار
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ، طلبا و فیکلٹی سے خطاب