ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے۔ جو عام طور پر زیورات، کپڑوں، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں جہیز کی یہ مروجہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت شکل اختیار کر گئی۔ برصغیر میں تو گاڑی بائک سونا زیور اور گھر کا فرنیچر پردے قالین وغیرہ تک مانگ لیا جاتا ہے
دلہن کے مہر کے بدلے کے طور پر بھی جہیز کے تعین کی کوشش کی جاتی ہے
اگرغور کیا جاۓ تو جہیز کے مطالبے کو رشوت کی ایک قسم کہا جا سکتا ہے
آج کل ہر کوئی جہیز کو لعنت قرار دیتا ہے
حالانکہ نبی پاک صلی اللہ الہ وسلم نے بھی اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا نبی ص کی سنت کو لعنت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے دراصل لعنت تو اسے ہم نے خود بنا دیا ہے محض جہالت اور لالچ کی وجہ سے،لڑکے والے خاص طور پر سامان اور کپڑوں کی لسٹیں بنا کر باقاعدہ ڈیمانڈ کرتے ہیں اور ا س بات پر ذرا سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے….اپنے چار پانچ سو دوست، رشتےدار بھی شادی میں کھانے پر ضرور بلاتے ہیں اور ان باتوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں شادی پر وی آئی پی مہمان نوازی کی توقع کرتے ہیں وجہ یہ کہ ہم لڑکے والے ہیں، ہونا تو یہ چاہٸے کہ لڑکی والے اپنی استطاعت کے مطابق اپنی لڑکی کو کچھ نئی زندگی کی شروعات کے لۓ شادی پر دیں ،نہ کہ لڑکے کے مہمانوں کو کھلانے پلانے کے ساتھ ساتھ سازو سامان کی بھی ذمہ داری اٹھایں_نجانے لڑکے والوں کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ وہ ماں باپ جنہوں نے اپنی لخت جگر بیٹی کو بیس بائیس سال تک پالا پوسا، لاکھوں روپے خرچ کر کے تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا اوراب وہ اپنی لاڈلی بیٹی ایک دوسرے خاندان کے حوالے کرنے کا رسک لے رہے ہیں کہ نجانے لڑکا اور اسکا خاندان آگے جا کر کیسےنکلیں ، لڑکے والوں کو ایک ایسی شخصیت مل رہی ہے جو نہ صرف انکے خاندان کی نسل کو آگے بڑھائے گی بلکہ انکا گھر بھی سنبھالے گی

اگر لڑکے والے صرف اتنا ھی سوچ لیں تو شاید طرح طرح کے مطالبات کر کے لڑکی والوں پر بوجھ نہ ڈالیں ایسی سوچ لڑکے کی تربیت، تعلیم غیرت اور خاندانی ہونے پر منحصر ہے بےغیرت اور کم نسل لڑکے کو ایسی سوچ نہیں آتی نہ ہی شرمندگی ہوتی ہے، گو کہ رشتہ طے کرنے سے پہلے دونوں طرف سے چھان بین ہوتی ہے لیکن پھر بھی کل کا کسے پتہ………. اسلام شادی بیاہ میں لڑکی والوں پر اس قسم کی کوئی پابندی نہیں عائد کرتا کہ وہ شادی میں لڑکے کے مہمانوں کو کھانا کھلائیں اور لژکے والوں کی شرطیں پوری کرتے پھریں بلکہ لڑکے کی ذمہ داری ہے شادی اور شادی کے بعد کی ضروریات زندگی سے متعلق ہر چیز کا پہلے سے خود بندوسبت کرکے رکھے پھر شادی کرے نہ کہ لڑکی سے کپڑے، کھانا اور سامان مانگے …… شادی کی خوشی میں وہ دعوت ولیمہ کا اہتمام کرے اور تمام دوست رشتےداروں کو کھانا کھلائے شادی میں لڑکی والوں پر کھاناکھلانے کابوجھ نہ ڈالےاگر اپنے رشتے داروں کو بلانے کا بہت شوق ہے تو شادی میں بھی انکے کھانے کا بندوبست لڑکااپنی جیب سے خود ہی کرے…….لڑکے والوں کو چاہیئے اگر ان کی یا انکے لڑکے کی اتنی حیثیت نہیں ہے تو شادی کو اس وقت تک کے لئے موخر کر دیں جب تک اس قابل نہ ہو جائیں تاکہ لڑکی والوں کے آگے ننگا اوربھوکا نہ بننا پڑے شادی کے معاملات نمٹانے کا صحیح طریقہ جانننے کیلۓ اپنے بزرگوں کے ساتھ ساتھ علماۓ دین سے بھی پوچھا اور مشورہ کیا جاۓ.

اللہ تعالی ہم سب کو شادی بیاہ کے معاملات میں سمجھداری اوردین اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے لڑکے اور اسکے خاندان کو بے غیرت کے بجائے غیرتمند، سمجھدار اور دوسروں کا احساس کرنے والا بنائے آمین…….. اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا ہے موجودہ معاشرتی ماحول نے اسے اتنا ہی مشکل تر بنا دیا ہے ………ادھار قرضے لے کرغیر ضروی رسموں سہرا, بارات مہندی, بری, شو بازی , فنکشن, دکھاوا وغیرہ جو شادی کو مشکل تر بناتے ہیں ختم کر کے سادگی اپناٸی جاۓ مسجد میں نکاح کا اہتمام ہو اور اس کے بعد سادہ سی شادی کی دعوت تک محدود رہا جاۓ جو آج کے دور میں سمجھداری اور عزت بچانے کا بہترین طریقہ ہے

Shares: