لاہور:اناں ونڈے ریوڑیاں،تےمُڑمُڑدیوےاپنڑیاں نوں:شہبازوزیراعظم؛حمزہ وزیراعلٰی :اطاعت فرض نافرمانی کبیرہ گناہ ، اس شاہ فرمان کی پاکستان مسلم لیگ ن کے پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے تصدیق کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے ن لیگ کے ترجمان حمزہ شہباز ہوں گے۔
رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ پنجاب کے امیدوار ہوں گے، پارلیمانی پارٹی نے حمزہ شہباز کے نام کی تجویز دی تھی اور ن لیگ کے قائد نوازشریف نے حمزہ شہباز کے نام کی منظوری دے دی ہے۔
پنجاب میں سیاسی ماحول گرم ہوتے ہی نوازشریف نے حمزہ شہبازشریف کو وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے نامزد کردیا گیا۔
مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی نے حمزہ شہباز کے نام کی سفارش کی تھی۔ پارلیمانی پارٹی کو حمزہ شہباز کے علاوہ دوسرے نام کا بھی کہا گیا۔ لیکن وہ نام نوازشریف نے سختی سے مسترد کردیا ، پنجاب کی پارلیمانی پارٹی نے دوبارہ بھی متفقہ طور پر حمزہ شہباز کا نام تجویز کیا۔
اس سے پہلے کل زرداری نے اپنی بیٹی آصفہ کومیدان میں اتارا ہے اور کہا ہے کہ اب لوگ میری بیٹی کی اطاعت کریں اور سیاست میں ان کو اپنا لیڈرقبول کرلیں
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود اور خواجہ عمران نذیر نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار حمزہ شہباز ہوں گے۔
خواجہ عمران نذیر نے بتایا کہ فلور کراسنگ والی کوئی بات نہیں ہے، لوگوں نے اپنے حلقوں میں بھی واپس جانا ہے۔ ہم انشاء اللہ کامیابی حاصل کریں گے۔
واضح رہے کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد پنجاب کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران تحریک مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب میں اپنا امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔
دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سے دھڑا دھڑ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مختلف اراکین صوبائی اسمبلی سے بھی ان کی ملاقاتیں جاری ہیں۔
تحریک انصاف کے ایک ہم خیال گروپ جو غضنفر چھینہ کی قیادت میں قائم ہے جسے چھینہ گروپ بھی کہا جاتا ہے نے پرویز الٰہی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا تھا کہ پرویز الٰہی آئندہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 186 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 183 اراکین ہیں، ق لیگ کے پاس 10 اور راہ حق پارٹی کے پاس ایک رکن ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں مسلم لیگ ن کے پاس 165 اراکین، پیپلز پارٹی کے پاس 7 کا ہندسہ ہے اور ان کی کل تعداد 172 بنتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پرویز الٰہی کو وزیر اعلٰی بننے کے لیے تحریک انصاف کے تمام اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔