شان پاکستان
تحریر:شاہد نسیم چوہدری فیصل آباد
"یار، یہ پرانے لوگ بھی ناں بس ہر وقت پاکستان، قربانی، حب الوطنی۔۔۔ کوئی اور بات ہی نہیں!”
احمد نے بے زاری سے کہا اور موبائل کی سکرین پر انگلیاں چلانے لگا۔
وہ ایک مشہور پرائیویٹ یونیورسٹی کا طالبعلم تھا، جس کے دن انسٹاگرام اور راتیں نیٹ فلکس پر گزرتی تھیں۔ سوشل میڈیا پر اس کی پروفائل تصویروں سے بھری ہوئی تھی — برگر، کافی، جم، اور ایک دو سیلفیاں پاکستان کے پرچم کے ساتھ… لیکن صرف 14 اگست کو۔
احمد کے والد ایک بڑے بزنس مین تھے۔ ملک، قوم، یا تاریخ سے اسے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ آزادی، جدوجہد، اور قربانی جیسے الفاظ اس کے لیے صرف اسکول کے نصاب کا بوجھ تھے۔

ایک دن، 13 اگست کی شام، یونیورسٹی سے واپسی پر اس کی گاڑی خراب ہو گئی۔ قریب ہی ایک چائے والا ہوٹل نظر آیا، جس پر پرچموں کی قطاریں لگی تھیں اور ایک بورڈ پر لکھا تھا:
"شانِ پاکستان: 1947 کے سپاہی کی زبانی
رات 9 بجے، داخلہ مفت!”
احمد نے چونک کر دیکھا۔”مزیدار چائے، اوپر سے مفت ڈرامہ… چل احمد، بوریت ختم کر!”
رات کو جب احمد مقررہ جگہ پہنچ کر اندر داخل ہوا تو ایک چھوٹا سا کمرہ دکھائی دیا۔ کچھ بینچیں، دو تین دیواروں پر پاکستان کی تصاویر، اور سامنے ایک سادہ سی میز۔ چند لوگ بیٹھے تھے — زیادہ تر بزرگ۔
پھر ایک دبلا پتلا بوڑھا آدمی اسٹیج پر آیا۔ سفید شلوار قمیص، کندھے پر چادر، اور سینے پر ایک تمغہ۔

"السلام علیکم! میرا نام بابا رشید ہے۔ 1947 میں ، میں نے سرحد پار کی۔ میری عمر اُس وقت تیرہ برس تھی، مگر میری آنکھوں میں جو تصویریں قید ہیں، وہ آج تک دھندلائی نہیں…”
احمد کی آنکھیں موبائل پر تھیں، لیکن کانوں میں بوڑھے کی آواز آہستہ آہستہ گھسنے لگی۔
"ہم نے پاکستان مانگا تھا، خدا سے۔ مگر خدا نے اسے یوں نہ دیا جیسے عیدی ملتی ہے۔ ہمیں اس کے بدلے اپنی بہنوں کے دوپٹے، ماؤں کے سہاگ، اور بچوں کی معصوم لاشیں دینی پڑیں۔”
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔
"میں نے اپنی ماں کو کٹتے دیکھا۔ ہم قافلے کے ساتھ تھے۔ وہ پچھلی طرف رہ گئی تھی۔ جب میں واپس بھاگا… ایک سکھ کی تلوار میرے سامنے چمکی۔ میں چیخا۔ اور وہ رُک گیا۔ بولا: بھاگ جا بچے، ورنہ تُو بھی…”
بوڑھا کانپنے لگا۔
"میں بھاگ آیا، ماں کو چھوڑ کر، پاکستان کی طرف۔ مگر آج تک اُس ماں کی چیخیں میرے خواب میں آتی ہیں۔ اور جب کبھی کوئی جوان مجھ سے کہتا ہے کہ ‘پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟’… تو میرے دل سے آواز آتی ہے — سب کچھ دیا، بیٹے، سب کچھ۔”

تیسرا منظر: موبائل بند ہو گیا
احمد نے موبائل کی طرف دیکھا — بیٹری ختم ہو چکی تھی۔ اب وہ مجبور تھا کہ بات سنے… اور اب وہ سننا چاہتا بھی تھا۔
بابا رشید کی آواز اب رندھ چکی تھی:
"پھر وقت گزرتا گیا۔ میں جوان ہوا۔ 1965 کی جنگ لڑی۔ میں نے لاہور کے محاذ پر بارودی سرنگیں بچھائیں۔ میرے ساتھ والے دو جوان شہید ہوئے۔ ایک کی لاش کو میں نے خود دفنایا۔ لیکن سوال یہ ہے…”
انہوں نے مجمع کی طرف دیکھا۔
"یہ پاکستان، جو ہمارے لہو سے سیراب ہوا… کیا آج بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا ہم نے اسے جان دے کر سمجھا تھا؟”
مجمع خاموش تھا۔
"کیا ہم نے اسے صرف جھنڈے لہرانے، پٹاخے چلانے، اور سیلفیاں لینے کے لیے حاصل کیا؟”
بوڑھے کی آنکھیں اب احمد کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ اور احمد کی نظریں جھک گئیں۔

چوتھا منظر: ایک سوال، ایک جواب
پروگرام ختم ہو چکا تھا۔ احمد نے باہر آ کر ایک سگریٹ سلگانا چاہی، لیکن ہاتھ کانپنے لگے۔
"بابا جی…”
بابا رشید پیچھے مڑے۔
"جی بیٹا؟”
"میں نے کبھی ان قربانیوں کو اس زاویے سے نہیں دیکھا تھا۔ مجھے لگتا تھا یہ سب پرانی باتیں ہیں، نصاب کا بوجھ…”
بابا جی مسکرائے۔
"بیٹا، تاریخ اگر صرف کتابوں میں رہ جائے تو قومیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کتاب نہیں، ایک خون کی تحریر ہے۔”
"تو پھر ہم کیا کریں؟ ہم نئی نسل…؟”
بابا جی نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھا:
"تم سچ بولو، محنت کرو، وطن سے محبت کرو… یہ کافی ہے۔”
"لیکن ہم نے تو سچ بولنا چھوڑ دیا ہے، بابا جی…”
"پھر دوبارہ سیکھ لو، بیٹا۔ یہی شانِ پاکستان ہے!”

نئی صبح
اگلی صبح احمد نے انسٹاگرام پر اپنی پروفائل پکچر بدلی — ایک سادہ تصویر، سفید قمیص، ہاتھ میں پرچم، اور کیپشن:
"شانِ پاکستان اُن بزرگوں کی آنکھوں میں ہے جنہوں نے یہ خواب دیکھا تھا۔ اور میرے جیسے نوجوانوں میں جو اب جاگ رہے ہیں!”
اس تصویر پر لائکس تو کم آئے، مگر بابا رشید کا فون آیا:
"بیٹا، کل رات تم نے کہا تھا کہ تم کچھ کرنا چاہتے ہو؟”
"جی بابا جی!”
"تو آؤ، ہمارے فلاحی ادارے میں شام کو بچوں کو پڑھانا شروع کرو۔ یہی شانِ پاکستان ہے!”
"شانِ پاکستان” صرف پرچم لہرانا یا ترانے بجانا نہیں…
یہ سمجھنا ہے کہ
جنہوں نے ہمیں یہ وطن دیا، وہ کون تھے…
اور
ہم اسے کس حال میں لے جا رہے ہیں۔
اگر آج کا نوجوان، اپنا آپ پہچان لے،
تو سمجھ لو پاکستان کی شان سلامت ہے۔۔۔۔۔۔، اور یہی "شان پاکستان” ہے ۔۔۔۔۔،

*پاکستان زندہ باد! قلم سلامت!

Shares: