عمر کوٹ کے ڈاکٹر شاہ نواز قتل: ڈی آئی جی جاوید جسکانی اور دیگر افسران کے خلاف مقدمہ درج

0
35
dr shahnawaz

عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھار کے جعلی پولیس مقابلے میں قتل کا مقدمہ ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی چودھری اسد، ایس ایس پی آصف رضا بلوچ، اور مولوی عمر جان سرہندی سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔ سندھڑی، ضلع میرپور خاص کے پولیس اسٹیشن میں یہ مقدمہ سرکاری مدعیت میں درج کیا گیا، جس نے سندھ بھر میں ایک اہم قانونی اور انسانی حقوق کے بحران کو مزید اجاگر کیا۔اس مقدمے کا پس منظر سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار کی پریس کانفرنس سے جڑا ہے، جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کو عمر کوٹ میں توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے کے بعد جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔ کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے واضح کیا کہ پولیس اہلکاروں پر جعلی مقابلے میں ملوث ہونے کا الزام تھا، اور اس الزام کی تصدیق ہونے پر اہلکاروں کو معطل کردیا گیا۔

وزیر داخلہ کے مطابق، وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس نے واقعے کی تفصیلات کا جائزہ لیا۔ تحقیقات کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی جائزہ لیا گیا، اور مکمل تحقیقات کے بعد وزیرِاعلیٰ کو 31 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کو پہلے کراچی سے گرفتار کرکے میرپور خاص پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، جہاں پولیس نے انہیں حراست میں قتل کیا اور بعد ازاں اسے جعلی مقابلے کا رنگ دینے کی کوشش کی۔اس واقعے کے بعد، سندھڑی تھانے میں پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر شاہ نواز کے وکلا کی دس رکنی ٹیم نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست جمع کرائی تھی۔ اس موقع پر بیرسٹر اسداللہ شاہ راشدی کی قیادت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے وکلا موجود تھے، جنہوں نے پولیس پر الزام لگایا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کو تحویل میں لے کر قتل کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2022 میں ایک قانون منظور ہوا تھا جس کے تحت جوڈیشل کسٹڈی میں ہونے والے قتل کی انکوائری ایف آئی اے کرتی ہے۔

وکلا کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی چودھری اسد، ایس ایس پی آصف رضا بلوچ، مولوی عمر جان سرہندی، ڈی آئی بی انچارج دانش بھٹی، سب انسپکٹر ہدایت اللہ ناریج اور دیگر پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیس کی مکمل حقیقت قبر کشائی کے بعد ہی سامنے آسکے گی۔
یہ واقعہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے سلسلے کا ایک اور افسوسناک باب ہے، جس نے انسانی حقوق کے گروپوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہلاکت 20 ستمبر 2024 کو سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں ہوئی، جہاں پولیس نے دعویٰ کیا کہ توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر شاہ نواز کو مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ یہ ایک ہفتے میں پیش آنے والا دوسرا واقعہ تھا جسے پولیس مقابلے کا نام دیا گیا۔

مقامی پولیس کے سربراہ نیاز کھوسو کے مطابق، پولیس نے بدھ کی رات موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو رکنے کا اشارہ کیا تھا، تاہم وہ نہ رکے اور پولیس پر فائرنگ شروع کردی۔ پولیس نے جوابی فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ڈاکٹر شاہ نواز موقع پر ہلاک ہوگئے، جبکہ دوسرا شخص فرار ہوگیا۔ نیاز کھوسو نے دعویٰ کیا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہی معلوم ہوا کہ مقتول وہی ڈاکٹر تھا جسے توہین مذہب کے الزام میں ڈھونڈا جارہا تھا۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مقامی علما کو پولیس افسران پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے اور ڈاکٹر شاہ نواز کی ہلاکت پر ان کی تعریف کرتے دیکھا گیا، جس سے اس معاملے کی حساسیت اور تنازع میں اضافہ ہوا۔

مقامی افراد نے نہ صرف مقتول کی تدفین میں رکاوٹ ڈالی، بلکہ ان کی لاش کو آگ لگادی گئی
۔ بعدازاں اہل خانہ نے مجبوری کے تحت بیابان میں ان کی تدفین کی۔ اس واقعے کے بعد وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے کہا کہ انکوائری میں یہ ثابت ہوگیا کہ یہ پولیس مقابلہ نہیں تھا، بلکہ ایک منصوبہ بند قتل تھا۔ ضیاء لنجار نے مزید کہا کہ ایس ایس پی میرپور خاص کو معطل کردیا گیا ہے، اور سپریم کورٹ کی ججمنٹ کے مطابق ایک واقعے کا ایک ہی مقدمہ ہوگا، جس میں ڈی آئی جی سمیت دیگر اہلکار ملوث پائے گئے ہیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر شاہ نواز کو جان بوجھ کر قتل کیا گیا تھا اور بعد میں اسے پولیس مقابلے کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی گئی۔ یہ مقدمہ سندھ میں پولیس کے نظام پر بڑے سوالات کھڑے کرتا ہے، جس میں جعلی مقابلوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔

Leave a reply