شام کی نئی حکومت نے تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے جس کے بعد حکومت کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔ ان تبدیلیوں میں بعض ناقدین کے مطابق تعلیمی مواد میں اسلامسٹ رجحان کا اضافہ کیا گیا ہے۔
یہ تبدیلیاں شام کی وزارت تعلیم کی سرکاری فیس بک پیج پر شائع کی گئی ایک فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ ان میں کئی اہم جملے تبدیل کیے گئے ہیں، جیسے "راہِ بھلا ئی” کو "اسلامی راہ” میں تبدیل کیا گیا ہے اور "جو لوگ گمراہ ہو گئے ہیں” کو "یہودیوں اور عیسائیوں” سے بدل دیا گیا ہے، جو کہ قرآن کی ایک آیت کی تشریح سے متعلق ہے۔مزید برآں، "شہید” کے لفظ کی تعریف بھی تبدیل کی گئی ہے، جسے پہلے "وطن کے لیے جان دینے والے” کے طور پر بیان کیا جاتا تھا، اب اسے "اللہ کے لیے قربانی دینے والا” کہا گیا ہے۔کچھ ابواب کو مکمل طور پر نصاب سے نکال دیا گیا ہے، جن میں "زندگی کی ابتدا اور ارتقاء” پر مبنی باب بھی شامل ہے۔
اس بات کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے کہ یہ تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں یا نہیں، تاہم یہ تمام 6 سے 18 سال تک کے طلبہ پر لاگو ہوں گی۔اگرچہ بشار الاسد کے دور حکومت کی سابقہ پالیسیوں کو رد کرنے والی تبدیلیوں کو بعض افراد نے خوش آئند قرار دیا، مگر تعلیمی نصاب میں مذہبی تبدیلیوں پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل آیا ہے۔
نئی وزارت تعلیم نے اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ان تبدیلیوں کا اعلان کیا، جب اسد کی حکومت کو باغیوں نے گرا دیا۔ یہ گروہ سابقہ القاعدہ کی شاخ سے نکلا ہے، اور اس کے رہنما احمد الشراء نے حالیہ دنوں میں اس تنظیم کو القاعدہ سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی ہے، اور ایک ایسی حکومت کا پرچار کیا ہے جو رواداری پر مبنی ہو۔
اس سے پہلے، بشار الاسد نے پارٹی کی قیادت کی تھی، جو ایک سیکولر اور نیشنل ازم کی حامی جماعت تھی اور 1963 کے فوجی انقلاب سے شام میں برسر اقتدار تھی۔
سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے سوال اٹھایا کہ عارضی حکومت تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کیوں کر رہی ہے، جبکہ دوسرے افراد نے اس بات کو مسترد کیا کہ یہ تبدیلیاں شام کی تاریخ کے کچھ حصوں کو "مٹانے” کی کوشش ہیں۔
ایک صارف نے وزارت تعلیم کے فیس بک پوسٹ پر تبصرہ کیا: "موجودہ حکومت ایک نگراں حکومت ہے اور اسے نصاب میں یہ تبدیلیاں کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نصاب کو نئے آئین کے مطابق ترمیم کیا جانا چاہیے۔”
اس ردعمل کے درمیان، وزارت نے ان تبدیلیوں کو کم کرنے کی کوشش کی اور کہا، "شام کے تمام اسکولوں میں نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، جب تک کہ اس کا جائزہ لینے کے لیے ماہر کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جاتیں۔”وزارت تعلیم کے وزیر نذیر محمد القادری کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ وزارت نے "صرف اسد حکومت کے دور کے دوران نصاب میں شامل مواد کو نکالنے کی ہدایت کی ہے، اور ان کتابوں میں اسد کے جھنڈے کی جگہ شام کی انقلابی پرچم کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔”وزارت نے مزید کہا کہ اس اعلان کا مقصد صرف اسلامی تعلیم کے نصاب میں موجود "غلط فہمیوں” کو درست کرنا ہے،
نئے وزیر تعلیم نے اس سے پہلے کہا تھا کہ شام کے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں صرف سابقہ حکومتی پارٹی کے حوالے سے کی جائیں گی، اور اسلامی اور عیسائی مذاہب کو اسکولوں میں تعلیم کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابتدائی اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں مل کر تعلیم حاصل کریں گے، جب کہ ثانوی تعلیم میں یہ تفریق برقرار رہے گی، جیسا کہ اسد کے دور حکومت میں تھا۔
یہ عارضی حکومت شام میں انتخابات کے انعقاد تک اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے موجود ہے، جس کے بارے میں رہنما احمد الشراء نے کہا ہے کہ انتخابات کے لیے تیار ہونے میں چار سال تک لگ سکتے ہیں۔اس بات کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے کہ نگراں حکومت کس طرح اقتدار کی منتقلی کرے گی، حالانکہ اس نے پہلے کہا تھا کہ وہ مارچ 2025 تک ہی اقتدار میں رہے گی۔
پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری کی اہلیہ وفات پا گئیں
10 سالہ سارہ کے قاتل باپ پر جیل میں حملہ








