شان پاکستان
تحریر: علشبہ اسحاق
لفظ "شان ِپاکستان” کوئی بلند و بالا عمارت نہیں، کوئی محلاتی طاقت نہیں، بلکہ یہ اس مزدور کا پسینہ ہے جو صبح سویرے رزقِ حلال کی تلاش میں نکلتا ہے۔ یہ اس ماں کا صبر ہے جو اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر اس قوم کا معمار بناتی ہے۔ یہ اس اُستاد کا قلم ہے جو آنے والی نسلوں کو شعور، علم اور ہنر کی شمع تھماتا ہے۔ اور یہ اس سپاہی کی وردی ہے جو سرد راتوں، برستی بارشوں اور تپتے دنوں میں بھی بارڈر پر کھڑا اپنے وطن کے ایک ایک ذرے کی حفاظت کرتا ہے۔
پاکستان کی اصل شان، وہ لاکھوں شہداء ہیں جنہوں نے "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ” کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی جان، مال، عزت، حتیٰ کہ اپنی نسلوں تک کو قربان کر دیا۔ ان کی قربانیوں کا نتیجہ یہ آزاد سرزمین ہے۔ وہ قربانیاں ہماری مٹی میں دفن نہیں ہوئیں بلکہ ہمارے ضمیر، ہماری پہچان اور ہمارے پرچم میں آج بھی بسی ہوئی ہیں۔ آج بھی اگر ایوانِ قائد سے لے کر وادی کشمیر تک فضاؤں میں کان لگایا جائے تو ان شہیدوں کی گونجیں سنائی دیتی ہیں۔ اگر اس وطنِ عزیز کی شان کی بات کی جائے تو، ہر قوم کی شان اُس کے نوجوان ہوتے ہیں اور پاکستان کے نوجوانوں کی شان تو پھر بےمثال ہے! کیسے، آئیے پڑھتے ہیں۔
ہم وہ نسل ہیں جنہوں نے 1947 کی جدوجہد کو اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا، مگر اپنے بزرگوں کی آنکھوں میں اس وقت کی چمک، خواب اور تکلیف کو ضرور محسوس کیا ہے۔ یہی چمک آج ہماری آنکھوں میں بھیہے، یہی خواب ہمارے دلوں میں پل رہے ہیں، اور یہی تکلیف ہمیں خوددار بناتی ہے۔ ہم صرف موبائل اور سوشل میڈیا کے دیوانے نہیں، ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو جدیدیت کو اپنی طاقت بناتی ہے۔
ہم نے بارہا ثابت کیا ہے کہ کبھی بھی مشکل وقت آئے ، کوئی سانحہ، قدرتی آفت یا دشمن کا وار، ہم سب سے آگے ہوتے ہیں۔ہم نوجوان ہی اپنی آستینیں چڑھا کر نکلتے ہیں، لوگوں کو بچاتے ہیں، کھانا بانٹتے ہیں، خون دیتے ہیں، امداد جمع کرتے ہیں۔ ہم جذباتی ضرور ہیں، مگر کمزور نہیں۔ ہم نٹ کھٹ بھی ہیں، مگر نادان نہیں۔ ہم ٹیکنالوجی سے جُڑے ہیں، مگر حالات سے بےخبر نہیں۔
ابھی حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے بھی ہمیں ثابت کیا کہ ہم نوجوان صرف لفظوں کے جنگجو نہیں، بلکہ نظریاتی محافظ بھی ہیں۔ دشمن کی طرف سے سوشل میڈیا پر نفرت کا طوفان آیا، مگر ہم نے پیار، علم اور دلیل سے مقابلہ کیا۔ جب ان کی زبان میں طنز تھا، ہم نے اپنی زبان میں دعا دی۔ اور جب للکارا گیا، تو ہم نے کہا: "ٹھہرو ذرا، وضو کر کے آتے ہیں۔”
کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ صرف حدیدی ہتھیار نہیں، ایمان بھی ایک مضبوط ہتھیار ہوتا ہے۔ یہی ایمان، یہی جذبہ ہمیں ہر مشکل وقت میں مضبوط بناتا ہے۔ دشمن چاہے محاذ پر آئے یا سوشل میڈیا پر، ہم ہر میدان میں تیار ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اب جنگ صرف بارود کی نہیں، بلکہ علم، ہنر، سوشل میڈیا اور نظریے کی بھی ہے اور ہم نے یہ جنگ جیتنی سیکھ لی ہے۔
جہاں ہمارے ہاتھ میں قلم ہے، وہیں کی بورڈ پہ انگلیوں کو رقص کرواتے ہیں، وہیں تلوار اٹھانے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ ہم وہ نسل ہیں جو اپنی شناخت کو سنوارنے اور بچانے کے فن سے واقف ہے۔ ہمیں نہ بکنے کا شوق ہے، نہ کسی کے سامنے جھکنے کی عادت۔ ہم صرف اپنے خالق کی طرف جھکتے ہیں اور صرف اپنے وطن کے لیے جیتے ہیں۔
آج اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان کی شان کیا ہے؟
تو ہم فخر سے کہیں گے: یہ ہمارے نوجوان ہیں! وہی نوجوان جو خواب دیکھتے بھی ہیں، اور اُنہیں سچ بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ ہم انہیں ارشد ندیم کا بتائیں گے کہ ارشد ندیم نے جب نیزہ پھینکا تو صرف گولڈ میڈل نہیں جیتا، پوری قوم کا دل جیتا، وہ لمحہ آج بھی ہمارے سینے میں دھڑکتا ہے۔ اور علی سیف؟ اُس نے "MilKar” سے ہزاروں دلوں کو جوڑا، جہاں سب نے ساتھ چلنا سیکھا، علم و ہنر بانٹنا سیکھا۔ ہم انہیں اپنی بہن اقصیٰ کا بتائیں گے کہ اقصیٰ اجمل نے جب نابینا بہنوں کے لیے سلائی مشین بنائی، تو دنیا نے جانا کہ یہ بیٹیاں صرف گھر کی زینت نہیں، بلکہ پوری قوم کا فخر بھی ہیں۔ تب ہم نے اپنی نئی نسل کی آنکھوں میں ایک نئی چمک دیکھی، یہ وہ چمک کچھ کر دکھانے کی تھی۔ شہروز کاشف نے برف پوش پہاڑوں کو چھوا، لیکن ہمارے دلوں کو گرم کر گیا۔ اور پھر جب یُمنہ مجید نے آسمان پر نظریں جمائیں، تو پوری دنیا نے دیکھا کہ ہماری بیٹیاں صرف ستارے نہیں گنتیں، خود ستارہ بن جاتی ہیں۔ اور ہماری کرکٹر ثناء میر، وہ تو کرکٹ کے میدان میں لاجواب کارکردگی سے خود پوری قوم کی آنکھوں کا تارا بن چکی ہیں۔
تو اب ہم سکون سے کہہ سکتے ہیں نہ ان سے، کہ ہاں یہ ہم ہیں!
ہم نوجوان، ہم طلباء، ہم کارکن، ہم مائیں، ہم اساتذہ، ہم سپاہی، ہم خواب دیکھنے والے، اور ہم وہ لوگ جو ان خوابوں کو پورا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ہم میں وہ جوش ہے جو صرف جذبے سے نہیں، ایمان سے آتا ہے۔ ہمیں اللہ پر یقین ہے، اور پاکستانی ہونے پر فخر۔ہم وہ نسل ہیں جو شکست کو تسلیم نہیں کرتی، اور فتح پر تکبر نہیں کرتی اور ہر صبح اپنے وطن کو بہتر بنانے کا عہد لے کر جاگتی ہے۔
شانِ پاکستان ہم سے ہے، ہم نوجوانوں سے، جو دل میں عزم، آنکھوں میں خواب اور ہاتھوں میں عمل کا چراغ لئے اپنے وطن کی راہوں کو روشن کر رہے ہیں۔ وقت کی گرد، حالات کی سختی اور دشمن کی سازشیں ہمیں ہلا نہیں سکتیں، کیونکہ ہماری بنیادوں میں شہداء کا لہو ہے اور دلوں میں پاکستان کی محبت۔ جب تک ہم سانس لیتے ہیں، یہ وطن محفوظ ہے، اور جب ہم نہیں ہوں گے۔ تب بھی ہمارے خواب اس سرزمین کو زندہ رکھیں گے۔ یہی ہے پاکستان کی اصل شان۔








