شانِ پاکستان
تحریر: بنتِ سیّد
اگست 1947 کو اس کرۂ ارض پر ایک ماں، ایک نئی شناخت "پاکستان” کا وجود ظہور میں آیا۔ ایک ایسی دھرتی ماں جس کے وجود کے حصول کے لیے اس کے سپوتوں نے انتھک کوشش و جدوجہد کی۔ اس دھرتی ماں کے قیام کو اس کے بیٹوں اور بیٹیوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا؛ تب کہیں جا کر دنیا کے ہر کونے میں ایک لفظ "پاکستان” کی بازگشت گونجی۔ یہی شانِ پاکستان ہے کہ دھرتی ماں "پاکستان” جب دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آیا تو اس کے سپوتوں نے اپنی مٹی کی آغوش میں اپنے تمام تر تھکن و آزمائش کو بھلا کر سکھ کا سانس لیا، اور نئے سرے سے پُرعزم ہو کر وطنِ عزیز کی شان کو بلند سے بلند تر کرنے کے لیے کوشاں ہو گئے۔
پاکستان کو منزلِ اوج عطا کرنے کا سفر کبھی آسان نہیں تھا۔ آزمائشوں کا یہ سفر جستجو و امید کی پرواز لیے ہوئے تھا، اور جو چیز اسے زمانے میں بے مثال و یکتا بناتی ہے، وہ اس کے قیام کی تہذیبی، تاریخی و روحانی داستان ہے۔ وہ نظریہ تھا جس نے خواب کو تعبیر کا پیرہن پہنانے کے لیے ہمت، استقلال اور مردانہ وار جدوجہد سے پہلی اینٹ رکھی، اور قوم کی ڈھارس بندھائی۔
آغازِ سفر کھٹن تھا، خاردار راستوں اور مزاحمتوں سے بھرا ہوا— لیکن یہ قوم و ملت کی بقا کی جنگ تھی، جسے قوم و ملت نے اپنے عزم و اتحاد سے بھرپور انداز میں عبور کیا۔ ابتدا میں دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے اس نئے وجود کو جو مسائل پیش آئے، ان میں آئین سازی، مہاجرین کی آبادکاری، معاشی و تعلیمی بحران جیسے امتحان سرفہرست تھے۔
اپنے وجود کی سالمیت کو لے کر پاکستان نے اٹھہتر (78) سالوں میں جو مسلسل جدوجہد کی، وہ "شانِ پاکستان” کی مکمل عکاسی ہے۔ اس کا مقصد صرف ایک زمینی خطے کی بقا کو قائم رکھنا نہیں تھا، بلکہ اس نظریے اور فکر کا تحفظ اور ان کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا جن کے پس منظر میں ہمارے آباؤ اجداد کا لہو شامل رہا۔ اس جدوجہد میں خوش آئند بات یہ رہی کہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے اس امر میں اپنا فعال کردار ادا کیا، اور یوں "شانِ پاکستان” کا اعزاز ہر دور میں پاکستان کے محسنوں کی دھڑکن اور عوام کے لبوں پر زندہ رہا۔
ملک ہماری حرمت، ہماری جان و آن ہے
پاکستان شان ہماری، ہم شانِ پاکستان ہیں
نامساعد حالات اور منتشر جذبات کے باوجود قوم نے عزم و استقلال سے ہر بیرونی ناپاک سازش کا قلع قمع کیا۔ 16 دسمبر 1971 کو اپنے وجود کا ایک اہم حصہ کھونے کے بعد پاکستان نے اپنی بقا کی جنگ کی مضبوط منصوبہ بندی شروع کی، اور 28 مئی 1998 کو "محسنِ پاکستان” ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی دانشوری و علمی فیض سے اسلامی ممالک میں پہلی اور عالمی سطح پر ساتویں ایٹمی طاقت کا اعزاز اپنے نام کیا۔
عمل و جدوجہد کا سفر رکا نہیں، بلکہ مزدور و کسان، محققین، ماہرین، سائنس دان، اطباء، وکلاء، فنکار، ادیب، شعرا اور طلبہ ہر وقت ملک کی ترقی و سالمیت کے لیے پیش پیش رہے۔
زندگی سے وابستہ ہر شعبے میں پاکستان نے اپنے شہریوں اور ہر دلعزیز کھلاڑیوں کے ذریعے نام کمایا۔ کرکٹ کے میدان میں 1992 میں عمران خان کی قیادت میں عالمی ٹرافی پاکستان کے حصے میں آئی۔ اپنی فاسٹ اور منفرد بالنگ کے ذریعے وسیم اکرم "سلطان آف سوئنگ” کہلائے۔ وہی شاہد آفریدی نے اپنی بیٹنگ کے ذریعے دلوں پر راج کیا۔
ہاکی کے میدان میں پاکستان نے تین اولمپک میڈلز اپنے نام کیے، اور ان فتوحات میں شہباز احمد سینیئر کا نام جہاں سرفہرست ہے، وہیں "فلائنگ ہارس” سمیع اللہ خان اپنی برق رفتاری سے دشمن کی صفیں اڑا دیتے تھے۔ اسکواش کی دنیا میں جان شیر خان، جہانگیر خان جیسے عالمگیر کھلاڑیوں کے ذریعے پاکستان نے پانچ دہائیوں تک حکمرانی کی۔
2024 میں نیزہ بازی کے میدان میں عالمی سطح پر بہترین کارکردگی دکھا کر ارشد ندیم نے پاکستان و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا، اور یہ ثابت کیا کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستان دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
تعلیم کے میدان میں ڈاکٹر عبدالسلام نے پہلے پاکستانی کی حیثیت سے نوبیل انعام وصول کر کے قوم کا وقار بلند کیا۔ طب کے میدان میں ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے محسنِ انسانیت نے خدمت کا عظیم نمونہ پیش کیا۔ آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ پاکستان کی کم عمر ارفع کریم (مرحومہ) نے پاکستان کو منفرد انداز میں عالمی شناخت عطا کی۔
ان سب کے علاوہ عبدالستار ایدھی کا نام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں "ایمبولینس سروس” کی وجہ سے قابلِ ذکر ہے۔ آج بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں بے شمار گمنام لوگ ملک کی بقا، سالمیت اور انسانیت کی خدمت کے لیے محوِ عمل ہیں، اور یہی اصل "شانِ پاکستان” ہے۔
شانِ پاکستان کا ذکر ہو تو کسی قیمت پر پاکستان کی عسکری قیادت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا کردار محض سرحدوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ ملک کے عالمی وقار و بقا کے لیے اہم اور فیصلہ کن رہا ہے۔ جذبۂ شہادت اور ایثار و قربانی سے لبریز 1948، 1965، 1971، 1999 کی جنگوں میں پاک فوج کے نوجوانوں نے جان کا نذرانہ دے کر اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کا دفاع کیا ہے۔
آپریشن راہِ راست، راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے اہم فوجی آپریشنز نے نہ صرف دہشت گردی کی کمر توڑی بلکہ دنیا کو بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا۔ قدرتی آفات، زلزلے، سیلابوں اور وباؤں کے دور میں ہمیشہ ریلیف کیمپس کے ذریعے افواجِ پاکستان قوم کے شانہ بشانہ رہی ہے۔
موجودہ وقت میں جب پڑوسی دشمن ملک نے پاکستان کو جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ناپاک منصوبہ بنایا، تو عسکری قیادت نے نہایت مدبرانہ انداز میں اس پر پیش رفت دکھائی اور آپریشن "بنیان مرصوص” کے ذریعے دشمن اور دنیا کو پیغام دیا کہ ہم اپنا دفاع کرنا نہ صرف جانتے ہیں بلکہ جب جوابی کارروائی کے لیے سامنے آتے ہیں، تو اس کی گونج اور چمک پوری دنیا کو سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں عوامِ پاکستان کا جذبہ بھی دیدنی تھا۔ دشمن کے ناپاک عزائم نے قوم میں دوبارہ وہ روح اور جذبہ پھونک دیا تھا جو قیام کے وقت ان کے آباء میں تھا۔ تمام تر اندرونی رنجشوں کو مٹا کر قوم مثبت جذبے کے ساتھ باہم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی حیثیت سے، اور مثبت سوچ و فکر کے ساتھ ابھر کر آئی تھی، اور دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ یہی "شانِ پاکستان” ہے — ہم باہم ہیں، ایک ہیں، اور متحد ہیں۔
پاکستان بنا ہے قائم رہنے کے لیے۔ بھلے کسی کو ایک آنکھ نہ بھائے، پاکستان تھا، پاکستان ہے، اور تا قیامت رہے گا، ان شاء اللّٰہ عزوجل۔
جذبہْ خودی رہا ہے تیرا مقدرِ جہاں
زمانے میں بلند سدا شانِ پاکستاں