شانِ پاکستان
تحریر: مونا نقوی
وطن عزیز جو خواب کی صورت علامہ اقبال کی جہاندیدہ آنکھوںمیں سمایا اور دوراندیش ذہن نے اس کا تصور امت مسلمہ کے دلوں میں بیدار کیا ۔ قائد ملت محمد علی جناح نے جسے شرمندہ تعیبر کرنے کے لیے انتھک جد وجہد کی ۔ تمام قوم کو یکجا کیا ، ایک ایسا نعرہ دیا جس نے ہر ذی شعور انسان میں جوش و ولولہ بھر دیا اور جوق در جوق آزدای کے پروانے اس آواز پرلبیک کہتے ہوئے سبز ہلالی پرچم کے تلے جمع ہونے لگے۔
کچھ وطن فقط نقشوں پر بنتے ہیں چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے نقشے دلوں پر نقش ہوتےہیں اور پاکستان ان میں سے ایک ہے…جسے خوابوں کی مٹی سے گوندھا گیا،تہجد میں مانگی گئی دعاؤں سے سینچاگیا،اور بے مثال قربانیوں سے تراشا گیا۔
اس ارضِ پاک کی سرحدیں کسی پین کی لکیروں کی مرہونِ منت نہیں،بلکہ ان قدموں کی گرد میں چھپی ہیں جو کوچوں سے کوچے، قافلوں سے قافلے،اپنا سب کچھ چھوڑ کرصرف ”لا الٰہ الا اللہ“ کی چھاؤں میں ہجرت کر کے آئے۔یہی تو ہے پاکستان کی نظریاتی شان —جہاں عقیدہ صرف عبادت نہیں،بلکہ شناخت بھی ہے۔یہاں کی مٹی میں صرف فصلیں نہیں اگتیں،یہاں خواب اگتے ہیں —وہ خواب جو کبھی ہنزہ کے نیلے آسمان میں تیرتے ہیں،تو کبھی سوات کی وادیوں میں بانسری کی صورت بجائے جاتے ہیں۔
بلوچستان کی قدرتی قیمتی معدنیات اپنے بطن میں چھپائے پہاڑیاں اس ملک کی شان ہیں ،دریائے سندھ میں بہتا پانی فقط پانی نہیں بلکہ صدیوں کی تہذیب کی رگوں میں بہتا ہوا خون ہے ۔کے ٹو کی برف پوش چوٹیاں وقار میں لپٹی دعاؤں جیسی ہیں جو فلک سے ہمکلام ہیں۔یہ قدرتی شان پاکستان کی وہ مسکراہٹ ہے جو زمین کے چہرے پر آسمان کے بوسے کی مانند ہے۔
وطن عزیز جہاں قدرتی خزانوں سے مالا مال ہے وہیں روشن دماغوں اور خداداد صلاحیتوں سے لبریز قومی ہیروز کا بھی مسکن ہے۔ ایسے ہیروز جنھوں نے ناصرف قومی سطح پر اپنا لوہا منوایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑے اور فخرِ پاکستان کہلوائے۔
جب زمین کو خون چاٹنے کی عادت پڑی،تو ہم نے سپاہیوں کے سینے آگے کر دیے۔ہم نے وردی میں صرف لباس نہیں پہنا،ہم نے وقار، قربانی، وفا اور موت کا گہنا پہنا۔وہ سپاہی جن کے لیے میڈیم نور جہاں نے ؛ ”اے وطن کے سجیلے جوانو ! میرےنغمے تمہارے لیے ہیں“ گا کر گیت کو امر کر دیا۔یہ عسکری شان نہیں،یہ اس ماں کا سچ ہے جو بیٹے کی لاش پر بھی فخر سے کہتی ہے:”میرا بیٹا پاکستان پر قربان ہو گیا…“
سائنسدانوں نے جب خاموشی سے مٹی میں علم بویا،تو آسمانوں سے روشنی اُتری۔جب دشمن نے ارض وطن کی طرف میلی آنکھ سےدیکھا تو ہم نے چاغی کی پہاڑیاں ہلا دیں اور ملک کو نا قابل تسخیر بنا ڈالا۔ڈاکٹر عبدالقدیر نے جوہری دھڑکنیں جگائیں،تو دنیا نے ہمیں عزت کی زبان میں پکارا۔یہ سائنس و دانش کی شان ہے —کم وسائل، زیادہ حوصلے، اور حدوں سے آگے سوچنے کا ہنر۔ارفع کریم جیسے چراغ بجھنے سے پہلے افق پر روشنی کی لکیر بن گئے۔
اور یہ جو لفظوں کی خوشبو بکھرتی ہےکبھی فیض کی نظم میں،کبھی پروین کی غزل میں،کبھی منٹو کی تلخ تحریروں میں،کبھی بانو کی نرمی میں ،یہ ادبی شان ہے،جہاں الفاظ صرف لکھے نہیں جاتے،جیے جاتے ہیں۔ہماری ثقافت وہ چادر ہےجس میں ہر رنگ کی دھجی بڑی محبت سے سلی ہوئی ہے۔پنجاب کی دھمال، سندھ کی ٹوپی،بلوچستان کا ساز، پختونخوا کی چائے،یہ سب "ہم” ہیں ۔۔۔ ”ہم“وہ چراغ جنھیں ہوائیں بجھا نہیں سکتیں۔
اور جب کھیلوں کے میدان میں ہرا جھنڈا لہرایا جاتا ہے،تو صرف جیت نہیں،پاکستان کا دل دھڑکتا ہے۔عمران کی ورلڈ کپ کی جیت ہو،یا جہانگیر خان کی ناقابلِ شکست دوڑ ،یا ارشد ندیم کی عظیم فتح ہم نے دنیا کو بتایا کہ فتح وہی ہوتی ہے جو جذبے سے شروع ہو۔یہ کھیلوں کی شان ہے —جہاں گیند، بلّا، ریکٹ، اور پسینہ صرف کھیل نہیں،قوم کی فتح بن جاتے ہیں۔ جن کی کامیابیوں سے ملت کے دل جوش و خروش سے بھر جاتے ہیں اور ہر زبان لہک لہک کر یہ نغمہ گنگنانے لگتا ہے۔
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے
اور پھر…وہ عام لوگ — جن کے لیے کوئی نغمہ نہیں لکھا گیا۔۔کوئی ترانہ نہیں پڑھا گیا،جن کے لیے کوئی ڈرامہ نہیں بنایا گیا۔جن کے نام کسی اینکر نے نہیں پکارے،جن کے لیے کوئی مجسمہ نہیں بنا…مگر جنہوں نے پاکستان کو روز بچایا، روز سنوارا۔ملک کی ترقی میں جنھوں نے شبانہ روز اپنا حصہ ڈالا وہ گمنام کردار بھی کسی ہیرو سے کم نہیں۔
کسی خاتون نے اسپتال میں ڈیوٹی دی،کسی نوجوان نے سافٹ ویئر ایجاد کیا،کسی درزی نے پاکستان کے جھنڈے میں کپڑا سی دیا،کسی ڈرائیور نے وقت پر روٹی گھر پہنچا دی —یہ سب عوام کی شان ہیں۔وہ مائیں، جو بغیر نوکری کیےدنیا کے سب سے بڑے دل کی مالک ہیں؛جو ملک کے لیے ایسی نسلیں پروان چڑھا رہی جو ملک و قوم کے لیے آنے والے وقتوں میں سرمایہ بنیں گی۔وہ بچیاں، جو تعلیم کےلیے گھروں سے نکلتی ہیں تاکہ والدین اور خاندان کانام روشن کر سکیں؛
وہ اقلیتیں، جو چرچ، مندر، گردوارے سے نکل کرپاکستان کے لیے سانس لیتی ہیں…یہ سب اصل شانِ پاکستان ہیں۔
اور وہ جو بیرونِ ملک بستے ہیں،اپنےدل میں پاکستان کو بسائےرکھتے ہیں۔دنیا کے نقشے پر جہاں بھی کوئی پاکستانی کچھ بڑا کرتا ہے،وہ ”شانِ پاکستان“ بن جاتا ہے۔چاہے وہ انجینئر ہو یا ڈاکٹر،کھلاڑی ہو یا استاد —اس کے نام کے ساتھ "پاکستانی” لفظ ہی اس کا تمغہ ہے۔
اور یہ زبان اردو،جو نا صرف بولی جاتی ہے،بلکہ بہتی ہے، نرالی ہے، خواب جیسی ہے۔اس کی روانی میں تہذیب ہے،اس کی لطافت میں علم،اور اس کی گہرائی میں پاکستان۔یہ زبان کی شان ہے —جو ہمیں جوڑتی ہے، سلاتی ہے، جگاتی ہے۔تو اے وطن…تو نہ صرف نقشہ ہے، نہ صرف زمین، نہ صرف دریا تو ایک چراغ ہےجو کسی نے خون سے جلایا،اور اب ہم نے اپنی سانسوں سے بچانا ہے۔تیری شان تیرے لوگ ہیں تیری شان تیری روشنی ہےتیری شان وہ خواب ہے جو ہم نے اگلی نسل کو آنکھوں میں دے کرآسمان کی طرف دیکھنا ہے۔
یہی تو ہے "”شانِ پاکستان“
خوابوں، دعاؤں، آہوں اور فتوحات کی داستان۔








