پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار کے حق میں پشاور کے کوہاٹ روڈ پر منعقدہ مظاہرے میں جرائم پیشہ افراد کی شرکت سامنے آ گئی ہے، جو کہ اس احتجاج کی نوعیت اور مقاصد پر سوالات اٹھا رہی ہے۔

نجی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق، پولیس ریکارڈ اور ایس ایچ او کے بیانات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شاندانہ گلزار کے حق میں ہونے والے احتجاج میں وہ افراد بھی شریک تھے جن کا تعلق مختلف جرائم سے رہا ہے۔ پولیس نے ان افراد کے احتجاج میں شامل ہونے کو ان کی قانونی مشکلات سے بچنے کے لیے ایک حربہ قرار دیا ہے۔ایس ایچ او کے مطابق، احتجاج کا سہارا لینے والے کئی افراد پر مختلف مقدمات درج ہیں اور وہ اپنے خلاف قانونی کارروائیوں سے بچنے کے لیے اس مظاہرے میں شرکت کر رہے تھے۔ اس انکشاف نے سیاسی حلقوں میں خاصی ہلچل مچا دی ہے، کیونکہ اس سے احتجاج کی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب، پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی شاندانہ گلزار نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب بے بنیاد اور جھوٹے دعوے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس طرح کے جھوٹے الزامات کے ذریعے دباؤ میں لا کر راضی نامے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ ان کا احتجاج قانونی اور جائز حقوق کے لیے تھا اور اس میں شامل تمام افراد قانون کی پابندی کرنے والے شہری تھے۔

2013ء سے آپ کی حکومت ہے، کیا آج تک کوئی بڑا پراجیکٹ کیا؟جسٹس اعجاز انور کا شاہانہ گلزار سے استفسار
علاوہ ازیں پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار کی درخواست پر ایس ایچ او بڈھ بیر کو 23 جولائی کو طلب کرلیا،پشاور کی عدالت عالیہ میں پی ٹی آئی رکن اسمبلی شاندانہ گلزار کی ایس ایچ او بڈھ بیر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی،درخواست پر جسٹس اعجاز انور اور جسٹس فہیم ولی نے سماعت کی،سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار عوامی نمائندہ ہیں اور عدالت سے کچھ عرض کرنا چاہتی ہیں۔

درخواست گزار ایم این اے شاندانہ گلزار نے کہا کہ میرے حلقے میں لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں، 3 ماہ میں ان کا کچھ پتہ نہیں چلا،جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہمارے سامنے تو گمشدگی کا ابھی تک کوئی کیس نہیں آیا، آپ کے حلقے میں کیا یہ ایک ایشو رہ گیا ہے،جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ کےحلقے میں شاید پاکستان میں سب سے زیادہ دہشتگردی ہے.جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ 2013ء سے آپ کی حکومت ہے، کیا آج تک کوئی بڑا پراجیکٹ کیا؟ وہاں دشمنیاں ہیں، لوگ قتل ہوئے، کیا سیاسی لوگوں نے آج تک اس کے حل کے لیے کوئی جرگہ کیا؟ ہمارے پاس جو رپورٹس ہیں ان کے مطابق آئس، اسلحہ اور ہوائی فائرنگ پر پابندی ہے، میں بھی اس حلقے سے ہوں، کیا وہاں پر کوئی یونیورسٹی، کالج، گرلز کالج یا پلے گراؤنڈ بنایا؟ آپ صرف اس طرح سے ایس ایچ او کا تبادلہ کروانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے، اگر اس حوالے سے کوئی ایف آئی آر آئی تو ہم اس کو سن لیں گے، صرف الزامات پر ہم کسی کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دے سکتے۔ 50 سال سے اس علاقہ میں رہتا ہوں، مجھے وہاں کے حقائق معلوم ہیں، یہ بی بی شاید اس علاقہ میں رہتی بھی نا ہوں۔

جس کے جواب میں درخواست گزار شاندانہ گلزار نے کہا کہ میں وہاں رہتی ہوں، وہاں پر میرا گھر ہے۔حلقے میں کام کے حوالے سے شاندانہ گلزار نے کہا کہ میں نے بڈھ بیر گرلز کالج اور زچہ و بچہ اسپتال وہاں پر منظور کروایا ہے۔جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ کو کوئی لیگل بات کرنی ہیں تو کریں، دیگر لوگ بیٹھے ہیں، ہم نے ان کو بھی سننا ہے۔درخواست گزار نے بتایا کہ وہاں پر ایس ایچ او کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا۔ جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اس پر تو حکومت نے انکوائری کا کہا ہے، ان کی رپورٹ آجائے گی نا۔عدالت نے سی سی پی کو طلبی نوٹس جاری کرتے ہوئے 23 جولائی کو ہونے والی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا۔

Shares: