پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ اور خاتون چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ہوتے ہوئے پنجاب میں کسی عام خاتون کے ساتھ بھی ناروا سلوک کا ہونا ناقابل برداشت ہونا چاہئے لیکن ایک معلم کے ساتھ مجرموں والا رویہ ہونا ہم سب کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب کے آفیشل پیچ پر لگی تصاویر اور ویڈیو نے ناصرف اساتذہ اکرام کے منصب و مقام کی توہین کی بلکہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ ہر باشعور اور غیرت مند فرد کو رلا کر رکھ دیا۔ سیکرٹری خود اور اپنے ہمنوا افسران کے ہمراہ کرسیوں پر براجمان ہو کر بادشاہانہ تمکنت کے ساتھ معزز خواتین اساتذہ کو کھڑے کرکے ہئیرنگ کر رہا ہے۔ مرد و خواتین اساتذہ کو مجرموں کی طرح کھڑے کرکے سننا استاد کی توہین اور جتنی مذمت کی جائے اتنی کم والا شرمناک رویہ ہے۔
پورے پنجاب کے اساتذہ اور ہر شہری اس رویے پر شدید دکھی اور غم و غصے کی کیفیت میں ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر مکتبہ فکر کی طرف سے اس شرمناک رویے پر سیکرٹری سے معافی اور وزیراعلیٰ سے سیکرٹری کی برطرفی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
میڈم وزیراعلیٰ جب آپ نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب حلف لیا تو دنیا بھر کی تعلیمی و سماجی تنظیموں کی طرف سے آپ کی وزارت اعلیٰ کو پنجاب میں خواتین کی بااختیاری اور تعلیمی و معاشرتی ترقی کے نئے دور کا آغاز کہا گیا تھا۔ بین الاقوامی تنظیموں نے مریم نواز کی وزارت اعلیٰ کا خیر مقدم کیا بلکہ اس امید کا اظہار کیا تھا کہ شعبہ تعلیم میں وزارت اور سیکرٹری کسی خاتون کو دے کر دنیا کو پنجاب اور پاکستان میں خواتین کی تعلیمی ترجیحات کا پیغام دیا جائے گا۔
پولیس کے رویہ کے بارے عوام کو عمومی شکایت ہوتی ہے لیکن میں نے دیکھا ہے وہاں بھی اگر کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ سامنے والا استاد ہے تو حیا کرتے ہیں۔ بیوروکریسی میں بہت سارے افسران جو اچھے خاندانی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں آج بھی اگر انکا استاد انکے دفتر آجائے تو وہ اپنی سیٹ پیش کرتے ہیں یا کم از کم ریوالونگ چئیر کی بجائے ان کے ساتھ کرسی یا صوفے پر بیٹھتے ہیں کہ وہ کبھی بھی اپنے استاد سے بڑے نہیں ہوسکتے۔ آرمی اور جوڈیشری میں قابل تعریف حد تک استاد کی عزت کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔
اللہ کے نبی نے بیشتر دفعہ فرمایا کی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اللہ کے آخری پیغمبر کا کام کرنے والوں کے ساتھ ایسا شرمناک رویہ؟
ایک موقع پر اللہ کے نبی کا فرمان ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔ استاد کے مقام کیلئے رسول اللہ سے باب العلم کا لقب پانے والے اور جنت کے سردار حضرت علی کا یہ قول کافی ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں۔ امام علی بن حسین زین العابدین کا کہنا ہے کہ استاد کا حق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے اور اسکی موجودگی کا لحاظ کیا جائے۔
خلیفہ ہارون الرشید کے دونوں بیٹے استاد کے جوتے پکڑنے میں پہلے کرنے کیلئے مقابلہ کرتے تھے۔
سیکرٹری تعلیم نے معزز اساتذہ کو کھڑے کرکے نا صرف ان کے منصب و مقام کی توہین کی بلکہ ان کی پیشگی اجازات کی بغیر انکی ویڈیو بنا کر اور سوشل میڈیا پر اپلود کر کے پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی کی، پیکا ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کی ویڈیو یا تصویر بنانا اور بنا اجازت سوشل میڈیا پر شئیر کرنے کی سزا تین سال تک قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ پولیس سمیت تمام سرکاری ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی معزز شہری کی ویڈیو نہ تو بنائیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر شائع کریں۔ کوئی بھی سرکاری ملازم کسی کا کام کرکے احسان نہیں کرتا جو زبردستی انکی ویڈیو اور تصاویر بنا کرسوشل میڈیا پر تشہیر کی جاتی ہے۔ عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعلی اور وزیراعظم کے علاوہ کسی بھی سرکاری ملازم کی تشہیر نہیں ہونی چاہئے۔ عوامی فلاح و بہبود کے تمام تر کاموں کا کریڈٹ اور تشہیر صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے نہ کہ سرکاری ملازمین کا۔
ملک سلمان
maliksalman2008@gmail.com

Shares: