پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر سیف نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ بیانات پر سخت تنقید کی ہے۔ بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈا پور دونوں رہنماؤں کے اعصاب پر سوار ہیں، اور ان کا پنجاب میں احتجاج کرنا ان کا جمہوری و آئینی حق ہے۔انہوں نے نواز شریف کی جانب سے گنڈا پور کے احتجاج کے حوالے سے کہا کہ "اقتدار کی کئی باریاں لینے کے باوجود نواز شریف کس سے گلہ کر رہے ہیں؟ شاید وہ اپنی بھائی کی حکومت کو ن لیگی حکومت نہیں مانتے ہیں۔ نواز شریف کی تقریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بھائی کی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔بیرسٹر سیف نے نواز شریف کے اس بیان پر کہ پنجاب میں مریضوں کا علاج کرنے کے لیے پنجاب جانا پڑتا ہے، تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان "مضحکہ خیز” ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "شریف خاندان تو خود سردرد کے علاج کے لیے بھی لندن جاتا ہے، اگر پنجاب کے ہسپتال اتنے اچھے ہیں تو وہ خود علاج کیوں نہیں کرواتے؟”

پی ٹی آئی کے رہنما نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ "پنجاب میں کئی باریاں لینے کے باوجود صحت کارڈ منصوبہ کیوں شروع نہیں کیا گیا؟” انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "اپنا گھر اسکیم” منصوبہ کی نقل کرنے کے باوجود "صحت کارڈ منصوبہ کب کاپی کریں گے؟بیرسٹر سیف نے ن لیگ کے معاشی استحکام کے دعوے کو بھی مضحکہ خیز قرار دیا، کہتے ہوئے، "کیا ملک پر مسلط جعلی فارم 47 کی حکومت ن لیگ کی نہیں؟اس سے قبل، نواز شریف نے کہا تھا کہ "پچاس لاکھ گھر کہاں ہیں؟ پنجاب میں کونسا تیر مار کر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں؟” انہوں نے مزید کہا کہ "پنجاب میں آنسو گیس کے شیل لے کر یلغار کرنے آتے ہیں، کیا یہ لوگ صوبوں کو لڑانا چاہتے ہیں؟”

نواز شریف نے عوامی نمائندوں کی حکومتوں کو کام کرنے کا موقع نہ دینے پر بھی تنقید کی، کہتے ہوئے کہ "اگر عوامی نمائندوں کو کام کرنے دیا جاتا تو آج کوئی بے گھر نہ ہوتا۔” انہوں نے مزید کہا کہ "پی ٹی آئی کے پیچھے چلنے والے لوگوں سے پوچھیں کہ پچاس لاکھ گھر کہاں ہیں؟ ان کی کارکردگی صفر ہے، اور ان کا کام ہی سڑکوں پر احتجاج کرنا ہے۔ ہم نے یہ موٹرویز احتجاج کے لیے نہیں بنائیں۔اس بیان بازی نے پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان سیاسی تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے، جبکہ عوامی مسائل پر دونوں جماعتوں کے مابین چپقلش واضح ہے۔ یہ صورتحال پاکستانی سیاست میں عوامی مسائل کے حل میں دونوں جماعتوں کی ناکامی کو اجاگر کرتی ہے، جبکہ عوام کی بھلائی کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت کو بھی واضح کرتی ہے۔

Shares: