اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کیس میں بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی-
باغی ٹی وی : سماعت کے آغاز پر عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے وکیل سے استفسار کیا کہ پی ٹی اے نے جواب جمع نہیں کروایا ؟ وکیل نے بتایا کہ چھٹی کے باعث ہم اپنا جواب داخل نہیں کرواسکےبعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل روسٹرم پر آ گئے، جسٹس بابرستار نے استفسار کیا کہ یہ بتایا جائے کہ شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت کون ریکارڈ کرتا ہے ؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکشن 54 کے تحت پی ٹی اے کو اختیار ہے کہ وہ کالز ریکارڈ کرسکتا ہے، اور یہ کام لیگل فریم ورک کے ذریعے کر رہے ہیں، عدالت نے کہا کہ جو بھی ہے آپ بتائیں شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت آپ ریکارڈ کر رہے ہیں، زبانی کلامی نہ بتائیں باضابطہ طور پر بتائیں، آپ بتائیں آپ نے کس کو اجازت دے رکھی ہے، کس نے اتھارٹی دی ہوئی ہے کہ لوگوں کی کالز ریکارڈ کی جائیں؟
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ مجھے تھوڑا وقت دے دیں میری استدعا ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت برہم ہوگئی، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے کہ کتنا وقت چاہیے؟ کب کی درخواست دائر ہوئیں ہیں؟ یہ 2023 میں درخواستیں آئیں ہیں، آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی، اگر آپ اب اس مؤقف سے پیچھے ہٹیں گے تو اس کے نتائج ہوں گے، قانون کہتا ہے کہ وفاقی حکومت اجازت دے سکتی ہے مگر آپ کے مطابق اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم آفس، وزارت دفاع، داخلہ، پی ٹی اے کہہ چکے کسی کو اجازت نہیں، تو آج کیسے اجازت دے دی؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پھر استدعا کی کہ مجھے تھوڑا سا ٹائم دے دیں، اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ کو نہیں پتا تھا کہ آج کیس لگا ہوا ہے؟ ایک سال سے یہ پٹیشنز زیر سماعت ہیں، اگر وفاقی حکومت عدالت میں جھوٹ بولے گی تو بات کیسے آگے بڑھے گی؟ وزیراعظم آفس سمیت دیگر اداروں کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی جا چکی ہیں، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو لیگل انٹرسیپشن کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ وہ جواب پٹیشنر کی آڈیو لیکس کی حد تک تھا،بعد ازاں جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ٹیلی گراف ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز پڑھنے کی ہدایت دی،جسٹس بابر ستار نے کہا کہ غیر قانونی سرویلنس ایک جرم جس کی قانون میں سزا موجود ہے، جب وفاقی حکومت نے جواب جمع کروایا تو عدالت نے اسے سنجیدہ لیا، پی ٹی اے کہہ رہا ہے کہ ہمیں کوئی اجازت نہیں دے رہا، سرویلینس کو اتھورائزڈ اگر کیا گیا ہے تو بتائیں کہاں موجود ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے اگر رولز نہیں بنے ہوئے تو بننے چاہئیں،عدالت نے پوچھا کہ کون بنائے گا رولز؟ کس کے ماتحت بنیں گے رولز؟ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور دیگر گریڈ 20 کے افسر کو نوٹیفائی کریں گے، یہ بتائیں کہ اداروں نے نوٹیفائی کر رکھا ہے اس حوالے سے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں یہ بات پوچھ کر بتا سکتا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ انٹیلی جنس افسر کی طرف سے درخواست دی جائے گی، تیسرا مرحلہ حکومتی وزیر کی جانب سے سپورٹنگ مٹیریل دیکھ کر اجازت دینا ہے، اس قانون میں بھی پرائیویسی کو مدنظر رکھا گیا ہےایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریویو کمیٹی ہونی چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ 11 سال سے قانون تو موجود ہے ریویو کمیٹی موجود نہیں، ریویو کمیٹی کیوں موجود نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں پوچھ کر بتاؤں گا،جج نے کہا کہ کیا کبھی کسی خفیہ ریکارڈنگ کے لیے اِس قانون کے تحت آج تک عدالت سے اجازت مانگی گئی؟ قانون کے تحت ہر چھ ماہ بعد کسی کی ایسی خفیہ ریکارڈنگ کے اجازت نامے پر نظر ثانی کی جائے گی، کیا کوئی ایسی نظر ثانی کمیٹی آج تک بنی، عدالتی اجازت کے بغیر فون ریکارڈنگ اور فون ریکارڈنگ کی فراہمی بھی قابلِ سزا ہے، کیا پی ٹی اے کے لائسنس کی شرا ئط میں یہ چیزیں شامل ہیں یا پی ٹی اے نے اس حوالے سے کوئی پالیسی دی ہے؟جج نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اس قانون کو پچھلے ایک سال میں فالو کیا گیا ہے یا نہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پوچھ کر بتاؤں گا۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت سے ہدایات لے کر عدالتی سوالوں کے جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی،عدالت نے ٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کے لئے فون کال اور ڈیٹا کے استعمال سے روکتے ہوئے کہا کہ اگر ٹیلی کام کمپنیز کے آلات غیرقانونی سرویلنس کے لیے استعمال ہوئے تو ان پر اس کی ذمہ داری عائد ہو گی اگر کمپنیز نے یہ اجازت دی تو ان کے خلاف کرمنل کاروائی ہو گی، عدالت نے وفاق سے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کے اعدادوشمار کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔