بھارتی ٹی وی چینلز پر اچانک بریکنگ نیوز کے طور پر سابق حکومتی عہدیدار شہزاد اکبر کے حوالے سے نشر ہونے والی خبروں نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ مبصرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے نے ایک بار پھر بھارت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مبینہ گٹھ جوڑ کو نمایاں کر دیا ہے، جس کا مقصد پاکستان میں افراتفری پھیلانا اور ریاستی اداروں کو متنازع بنانا بتایا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق لندن میں شہزاد اکبر پر مبینہ حملے کے الزام کو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے فوری طور پر عسکری قیادت سے جوڑنے کی کوشش کی، جسے ناقدین نے کھلی ملک دشمنی اور قومی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ریاستی اداروں پر الزام تراشی نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ اس سے دشمن قوتوں کو پاکستان کے خلاف بیانیہ مضبوط کرنے کا موقع ملتا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق لندن میں شہزاد اکبر پر مبینہ حملہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی ڈرامہ معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد اسائلم کیس کو مضبوط بنانا اور ممکنہ حوالگی کے عمل کو سبوتاژ کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پوری کہانی کو جس انداز میں بھارتی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اور جس تیزی سے پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اسے آگے بڑھایا، وہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
مزید برآں، برطانیہ میں پیش آنے والے اس مبینہ واقعے کی تفصیلات بھی شکوک و شبہات سے خالی نہیں۔ اطلاعات کے مطابق کرسمس کی چھٹیوں کے دوران، بغیر کسی طے شدہ ملاقات اور مبینہ خطرے کی پیشگی اطلاع کے باوجود ویو گلاس دروازہ کھولنے کا دعویٰ ناقابلِ فہم قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے نزدیک یہ کوئی سادہ غفلت نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے اسکرپٹ کا حصہ محسوس ہوتا ہے، جس کا مقصد برطانوی حکام کے سامنے خود کو غیر محفوظ ظاہر کرنا ہے تاکہ پاکستان واپسی کو روکا جا سکے۔
سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی زیرِ بحث ہے کہ اگر حملہ آور اتنا باخبر تھا تو وہ گھر میں نصب سیکیورٹی کیمروں سے کیسے بچ نکلا؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پہلو اس کہانی کو مزید مشکوک بنا دیتا ہے اور یوں یہ واقعہ حملے سے زیادہ ایک سیاسی ڈرامہ دکھائی دیتا ہے۔مبصرین کے مطابق افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی ایک بار پھر بھارتی میڈیا کے بیانیے کو تقویت دیتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے بقول قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر دشمن کے ایجنڈے پر بولنا محض سیاسی اختلاف نہیں بلکہ کھلی بے وفائی کے مترادف ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانیے نہ صرف پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اندرونی انتشار کو بھی ہوا دیتے ہیں، جس کا فائدہ براہِ راست ملک دشمن عناصر کو پہنچتا ہے۔








