جعلی مقدمات چلانے پر شہزاد اکبر اور ماڈل صوفیہ مرزا کے خلاف فوجداری مقدمہ درج
اسلام آباد : سابق وزیر احتساب شہزاد اکبر، ماڈل صوفیہ مرزا اور دیگر کے خلاف 2020میں بزنس مین عمر فاروق ظہور کے خلاف "جھوٹے اور انتقامی مقدمات” درج کرانے پر فوجداری مقدمہ درج کیا گیا ہے-
باغی ٹی وی : اسلام آباد سیکرٹریٹ پولیس سٹیشن میں درج ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق صوفیہ مرزا (جن کا اصل نام خوش بخت مرزا ہے)، اس کی بہن مریم مرزا، مائرہ خرم، عمید بٹ اور علی مردان شاہ کے خلاف پی پی سی 1860 کی دفعہ 420، 468، 471، 385، 386، 389، 500 اور 506 کے تحت فوجداری تفتیش کا باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا گیاہے-
بدقسمتی سے پی ٹی آئی دوسری ایم کیو ایم بننے جا رہی ہے،فیصل واوڈا
مقدمہ عمر فاروق شہزاد کی مدعیت میں تھانہ سیکرٹریٹ میں درج کیا گیامقدمہ دھوکہ دہی، جعلی دستاویزات تیار کرنے،رقم کی خورد برد، ہتک عزت اور مجرمانہ دھمکیاں دینے کے الزام میں درج کیا گیا ہے-
مقدمہ کے متن کے مطابق عمر فاروق ظہور اور دیگر کے خلاف انکوائری وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کارپوریٹ کرائم سرکل (سی سی سی) لاہور نے ان کی سابق اہلیہ صوفیہ مرزا کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست کو سورس رپورٹ کے طور پر مانتے ہوئے شروع کی تھی ایف آئی آر میں نامزد افراد نے تاجر ظہور کے خلاف ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل لاہور میں جھوٹے مقدمات کا اندراج کرکے ان سے رقم بٹورنا چاہی-
ایف آئی آر کی درخواست میں خاص طور پرشہزاد اکبر کے کردار کا ذکر ہے جس نے ظہور کےخلاف مہم چلانےکے لیے کابینہ کا استعمال کیاایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا فوجداری مقدمات کے اندراج کے بعد، وزیر اعظم کے اس وقت کے خصوصی مشیر برائے احتساب جناب شہزاد اکبر نےغیر قانونی مالیاتی فوائد کے لیےدھوکہ دہی سےسیکشن 188 سی آر پی سی 1898 کے تحت کابینہ سے منظوری حاصل کی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ اور ناروے میں مقدمات پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔
پاکستان نے بھارت کےساتھ نیوٹرل وینیو پر ٹیسٹ سیریز کیلئے گرین سگنل دیدیا
درخواست گزار سال 2023 میں تفتیش میں شامل ہوا اور ایف آئی آر نمبر 36/20 اور 40/20 کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مکمل چھان بین کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ مذکورہ ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات جھوٹے، غیر سنجیدہ ہیں۔ اس کے بعد، جے آئی ٹی ایف آئی اے نے بورڈ کی منظوری سے، سیکشن 173 سی آر پی سی کے تحت دونوں ایف آئی آرز میں مجاز عدالتوں کے سامنے کینسلیشن رپورٹ جمع کرائی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ صوفیہ مرزا، جس نے 2006 میں ظہور سے شادی کی تھی، نے درخواست گزار کے خلاف اسے بلیک میل کرنے اور اس سے رقم بٹورنے کے لیے مقدمہ شروع کیا عمر فاروق ظہور نے سال 2013 میں معزز سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسے دس لاکھ روپے کی بھاری رقم بھی ادا کی –
علی محمد خان اور شیریں مزاری دوبارہ گرفتار
تاہم صوفیہ مرزا نے سال 2020 میں اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور عمید بٹ اور علی مردان شاہ (ایف آئی اے کے اہلکار) کے ساتھ مل کر درخواست گزار کو دوبارہ بلیک میل کرنا شروع کر دیا تاکہ اس سے مزید رقم بٹور سکے پھر صوفیہ مرزا نے مذکورہ افراد کی مدد سے درخواست گزار اور اس کے خاندان کے دیگرافراد کے خلاف جھوٹے فوجداری مقدمات درج کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ درخواست گزار کو بلیک میل کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور ہراساں کیا گیا-
گزشتہ ہفتے، جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور کے جج غلام مرتضیٰ ورک نے تاجر ظہور کو منی لانڈرنگ کے دو مقدمات میں بری کر دیا، جو ان کے خلاف ان کی سابق اہلیہ صوفیہ مرزا اورشہزاد اکبر نے درج کرائے تھے –
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اس کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ملزم فراڈ، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی میں ملوث نہیں تھا جس کے بعد جج غلام مرتضیٰ ورک نے ظہور کو بری کر دیا اور دو ایف آئی آرز کو منسوخ کر دیا-
ملیکہ بخاری رہائی ملنے کے بعد دوبارہ گرفتار
دونوں مقدمات اکتوبر 2020 کے اوائل میں شروع کیے گئے جب صوفیہ مرزا نے شہزاد اکبر کی مدد سے ایف آئی اے لاہور کے کارپوریٹ سرکل سے رابطہ کیا، جس نے ظہور اور اس کے بہنوئی کی جانب سے تقریباً 16 ارب روپے کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر تحقیقات کی منظوری کے لیے کابینہ سے رجوع کیا۔
مقدمات کے اندراج کے وقت، صوفیہ مرزا نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے بطور شکایت کنندہ خوش بخت مرزا کا نام استعمال کیا اور یہ حقیقت کہ ظہور اس کا سابق شوہر تھا اور دونوں اپنی دو نوعمر بیٹیوں کی تحویل پر عدالتی تنازعہ میں ملوث تھے۔
ظہور نے عوامی طور پر الزام لگایا ہے کہ صوفیہ مرزا اور اس کے ساتھیوں نے ان سے رقم بٹورنے کی کوشش کی اور جب اس نے انکار کیا تو انہوں نے پی ٹی آئی حکومت میں اپنے سرکاری رابطوں کا استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات شروع کر دیے۔
آج رات 12 بجے کے بعد عمران خان کی گرفتاری ممکن ہے،رانا ثنااللہ
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش یہ بات ریکارڈ پر لائی گئی کہ ظہور نے نہ صرف الزامات کی تردید کی بلکہ ناروے پولیس کی جانب سے ایک خط بھی پیش کیا جس میں تصدیق کی گئی کہ مذکورہ انکوائری کو عدم ثبوت کی وجہ سے بند کیا گیا تھا اور ایک اور دستاویز بھی پیش کی۔ اوسلو پولیس نے پبلک پراسیکیوٹر کو مقدمہ خارج کرنے کی سفارش کی۔
فاضل جج نے قرار دیا کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹس کی بنیاد پر ایف آئی آرز خارج کی جائیں۔