رواں ماہ کی اکیس تاریخ کواسلام آباد پولیس کی جانب سے نے پی ٹی آئی کی رہنما شریں مزاری کو تحویل میں لینے کی اطلاعات نیوز چینلز پر بریک کی شکل میں گردش کرتی رہیں, سابق خاتون وزیر کی گرفتاری زمین کی ملکیت اور منتقلی کی معاملے کے تحت پیش آئی, شریں مزاری کو دن کی روشنی میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گرفتار کیا گیا تاہم ان کی بیٹی کی جانب سے گرفتاری کے لمحات کو یکسر غلط طریقے سے پیش کیا گیا, ایمان مزاری کے مطابق ان کی والدہ کو مرد پولیس اہلکار مارتے پیٹٹے لیکر گئے جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہوا, جس کی تین بہت ٹھوس وجوہات ہیں, ایک تو شریں مزاری خاتون ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قسم کی حرکات کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اس قسم کی جرات کر بھی نہیں سکتے ہیں, دوسرے وہ سینئر شہری ہیں, تیسری اور سب سے اہم وجہ وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں, ان تین اہم وجوہات کیں بنا پر پاکستان کا ہر فرد ان کی اور جیسی ہر خاتون کی بہت عزت کرتا ہے جبکہ اسلام خاتون کو مقدم کہتا ہے تو بطور مسلماں ایسا عمل کرنے ہر گز زیب نہیں دیتا ہے اور نہ ہی یہ عمل وقوع پذیر ہوا ہے جس کا واضح ثبوت وہ وائرل ویڈیو ہے, جس میں شریں مزاری اسلام آباد پولیس کی خاتون اہلکار کی زیر حراست دیکھی جا سکتی ہیں, جس میں کوئی پرتشدد واقعہ ہوتا کہیں نہیں دیکھائی دے رہا ہے البتہ مزاری صاحبہ بہت غصے میں نظر آرہی ہیں, اس ویڈیو کے ذریعے ایمان مزاری کا جھوٹ بے نقاب ہوکر سامنے آیا ہے, پاکستان کے دفاعی ادارے پر بے جا تنقید کرنا ایمان مزاری کی ان عادات کا حصہ ہے جس سے ان کی والدہ بھی نالاں رہی ہیں, ایمان مزاری نے اپنی والدہ کی گرفتاری پر حسب سابق ریاستی اداروں اور فوج کی قیادت کے خلاف بے بنیاد الزامات اور مفروضوں کی بارش شروع کردی اور کہنا شروع کردیا کہ نہ جانے کون میرے ماں کو لے گیا, پتہ نہیں وہ کہاں ہیں, ایمان مزاری جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں انہوں نے ایکبار پھر پاک فوج کی قیادت پر بنا ثبوت کے الزام عائد کیا کہ ان کی والدہ کو اغوا کیا گیا ہے جس کے پیچھے عسکری قیادت کی اعلی شخصیت کا ہاتھ ہے جبکہ اس دوران مذکورہ ویڈیو بھی وائرل ہوچکی تھی اور اینٹی کرپشن کی جانب سے شریں مزاری کی گرفتاری کی تصدیق بھی ہوچکی تھی
سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی گرفتاری ضلع راجن پور میں تجاوزات سے متعلق کیس کی وجہ سے عمل میں آئی, ان کے خاندان پر صوبائی دارالحکومت لاہور سے 400 کلومیٹر دور ڈی جی خان ڈسٹرکٹ میں 800 کنال (100 ایکڑ) اراضی ہتھیانے کا الزام ہے۔معتدد دہائیوں کی عدالتی تاخیر کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران مارچ 2022 میں اس معاملے میں پولیس کیس درج کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف 11 مارچ 2022 کو شکایت درج کر کے اسسٹنٹ کمشنر راجن پور کو معاملے کو دیکھنے کے لیے کہا گیا, اے سی نے 8 اپریل 2022 کو کیس کی رپورٹ مرتب کی جس کی بنیاد پر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے اپنے رولز 2014 کے تحت فوجداری مقدمہ درج کیا۔مقدمہ ڈپٹی کمشنر راجن پور کی درخواست پر درج کیا گیا۔ جس کے بعد اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نے ایف آئی آر درج کی۔
عوام سے سچ چھپانے کی خواہش کی خاطر ایمان مزاری نے اپنی والدہ کی گرفتاری پر بے بنیاد جھوٹ پر جھوٹ بولے
ماضی میں شریں مزاری نے ایمان مزاری کی جانب سے فوج پر بے ایمانی اور جھوٹے الزامات لگانے کو اپنے لئے ہتک آمیز رویے کو قرار دیا تھا, انہؤں نے ایمان مزاری کے پاکستان آرمی کے خلاف ٹویٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ آپ ایسے گھٹیا، ذاتی نوعیت کے، غیر مصدقہ حملے کرتی ہیں,بطور وکیل آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بغیر کسی ثبوت کے اس طرح کے الزامات لگانا مناسب نہیں ہے ۔
23 مئی 2018 کو شیریں مزاری نے ایمان مزاری سے فوج کے خلاف اپنے بیانات پر کہا، "آپ کو پاک فوج کے خلاف اپنی جنونی نفرت کو چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے تمام عقلیت کھو دی ہے, میں اپنی اولاد کے گستا خانہ روئیے کو درست نہیں کہونگی مگر بعد میں انہوں نے اپنی بیٹی کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کی ایمان مزاری نے مارچ 2022 میں پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مسلح افواج کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔جس کا مقدمہ جکوہسار تھانے اسلام آباد میں مختلف الزامات کے تحت درج کیا گیا تھا،جس میں مجرمانہ سازش، فساد، غیر قانونی اجتماع، ہتک عزت، امن کی خلاف ورزی اور حملہ کو اکسانے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین شامل تھیں تاہم لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کیس کی مزید پیروی نہ کرنے کا حکم دیا اور پولیس کو ہتک عزت کے الزام میں گرفتار کرنے سے روک دیا
مذکورہ کیس نے مزاری ماں اور بیٹی کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے, ان کا جھوٹ اور زمینوں پر قبضے کا معاملہ ان کے کمزور کردار اور نام نہاد انسانی حقوق کے دعوؤں کو بے نقاب کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام سوال کرتے ہیں کہ
کیا ایمان مزاری کی طرف سے پاکستان کے معزز ادارے اور اس کی قیادت کو بدنام کرنے پر قانون حرکت میں آئے گا ؟
پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ایمان مزاری کے ہتک آمیز ریمارکس کے خلاف مناسب تحقیقات ہونی چاہئیں