کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا شہرت قبر تک ساتھ چلے گی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا شہرت قبر تک ساتھ چلے گی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست کی لائیو کوریج سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی
سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دے دی ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وکیل، سائل اور عدالت میں رابطہ کار ہوتا ہے،بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے،اعتراضات اور سوالات پر توقع ہے آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے،
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جہاں آپ کو محسوس ہو کہ میں حد پار کر رہا ہوں مجھے روکا جائے،بہتر ہو گا تمام سوالات آخر میں پوچھے جائیں، 23مئی 2019کو میرے خلاف ریفرنس چیف جسٹس کو بھجوایا گیا، 29مئی کو ریفرنس کی خبر میڈیا پر آئی، ہمیں بدنام کیا گیا،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست میں فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پوری دنیا میں میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا،
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میرا تعلق ایک آئینی ادارے سے ہے، ہمیں بہت سے چیزوں پر رائے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، ججز کی ایک ذمہ داری صبر اور تحمل کرنا بھی ہے، لوگ آپ کے خلاف ہیں تو آپ کے حامی بھی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری کزنز نے کہا ریفرنس آپ کے دوستوں نے خارج کیا ہے، اپنے کزنز کی بات سننے کے بعد ان سے ترک تعلق کردیا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا شہرت قبر تک ساتھ چلے گی، میں نہیں چاہتا کہ اچھی شہرت پر حرف آئے، لندن کی جائیدادیں میرے جج بننے سے بھی پہلے کی ہیں، جائیدادیں خریدتے وقت میرے بچے بالغ تھے سپریم کورٹ جج بننے کے بعد کوئی جائیداد نہیں خریدی شادی سے پہلے بھی میری اہلیہ ٹیچر تھیں ،بہترین تنخواہ لیتی تھیں اپنے ریٹرنز میں کبھی بھی اہلیہ کی جائیدادیں ظاہر نہیں کیں،قانون کی خلاف ورزی ہو رہی تھی تو ایف بی آر نے کبھی نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اہلیہ نے نجی بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا جس سے رقم منتقل ہوئی، فارن کرنسی اکاؤنٹ کو اس وقت قانون تحفظ حاصل تھا،سپریم کورٹ جج ہونے کے باعث پراپیگنڈے کا جواب نہیں دے سکتے،
جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے پر نظر ثانی کر کے 19 جون کے عبوری حکم کو ختم کرے،درخواست میں کہا گیا کہ ایف بی آر نے اہل خانہ کے خلاف کارروائی تفصیلی فیصلے سے پہلے ہی شروع کر دی،ایف بی آر کی درخواست گزار کی رہائش گاہ کے باہر نوٹس چسپاں کرنا بدنیتی پر مبنی ہے، حکومتی تحریری دلائل پر جواب جمع کرانے کا موقع دیا جائے،
قبل ازیں 18 جولائی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستان بارکونسل نےنظر ثانی درخواست دائرکردی تھی
پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ 19جون کےفیصلےپرنظرثانی کرے،درخواست میں صدر مملکت ،وزیراعظم اوروفاقی وزیرقانون کو فریق بنایا گیا ہے،درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل،مشیراحتساب شہزاد اکبر کوبھی فریق بنایا گیا ہے سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ کےتوسط سے نظرثانی درخواست دائرکی گئی،
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست منظور کرلی،سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا
سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ایف بی آر جسٹس قاضی عیسیٰ کی اہلیہ کو پراپرٹی سے متعلق 7 روز میں نوٹسز جاری کرے،ایف بی آر کے نوٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سرکاری رہائشگاہ بھجوائے جائیں،ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس کیا جائے،ایف بی آر کے نوٹس میں جج کی اہلیہ اور بچے فریق ہوں گے،ایف بی آر حکام معاملے پر التوا بھی نہ دیں،انکم ٹیکس 7 روز میں اس کا فیصلہ کرے.
قانون آرڈیننس کے ذریعے بنانے ہیں تو پارلیمان کو بند کر دیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس
جوڈیشل کونسل کے خلاف سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل
کسی جج پر ذاتی اعتراض نہ اٹھائیں، جسٹس عمر عطا بندیال کا وکیل سے مکالمہ
ججز کے خلاف ریفرنس، سپریم کورٹ باراحتجاج کے معاملہ پر تقسیم
حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا
حکومت نے یہ کام کیا تو وکلاء 2007 سے بھی بڑی تحریک چلائیں گے،وکلا کی دھمکی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی میدان میں آگئے، ریفرنس کی خبروں پر صدرمملکت کوخط لکھ کر اہم مطالبہ کر دیا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد کے اصل مالک ہیں یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے سب بتا دیا
صدارتی ریفرنس کیس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ پیش ہو گئے،اہلیہ کے بیان بارے عدالت کو بتا دیا
سپریم کورٹ فیصلے کے بعد صدر اور وزیر اعظم کو فورا مستعفی ہوجانا چاہئے، احسن اقبال
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ان لینڈ ریونیو کا کمشنر تمام فریقین کو سنے گا،انکم ٹیکس کمشنر قانون کے مطابق فیصلہ کرے،ایف بی آر 7 دن میں سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ جمع کرائے،چیئرمین ایف بی آر تمام تر معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو فراہم کرے گا،فیصلہ فل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سنایا