وطن عزیز اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی قوم کا اجتماعی شعور تھکا ہوا ہو۔ دل بوجھل ہو اور نظر دھندلا گئی ہو ملک کے سیاسی منظرنامے پر جو شور، الزام تراشی، بدزبانی اور عدم برداشت چھایا ہوا ہے، اسے دیکھ کر شائبہ ہوتا ہے جیسے کہ ہم ایک ایسی کھائی کے کنارے کھڑے ہیں جہاں سے واپس پلٹنے کے لیے بہت مضبوط ارادہ درکار ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں اداروں پر تنقید ہوتی ہے مگر وہ تنقید دلیل کے ساتھ اور تہذیبی دائرے میں کی جاتی ہے۔ مگر وطن عزیز میں حالیہ برسوں میں جو زبان، جو لہجہ اور طرز بیان اختیار کیا گیا ہے وہ ریاستی اداروں سمیت ہر اس ستون کے لیے مایوس کن ہے جو کسی قوم کی بقا کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ یہ محض زبان کا بگاڑ نہیں ایک گہری سماجی بے چینی کی علامت ہے۔ اصل مسلہ یہ ہے کہ ملک میں قیادت کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے ہمارے سیاسی رہنماؤں میں برداشت، بردباری، حکمت اور وقار کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جذباتیت اور ردعمل نے وسعتِ نظر کی جگہ لے لی ہے۔ سیاست دلیل سے ہٹ کر نعروں تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ وہ چند لوگ جو تحمل اور وقار سے بات کرنا جانتے ہیں انکی آواز شور میں دب کر رہ گئی ہے۔

یہ بحران صرف سیاست تک محدود نہیں معاشرتی رویے بھی اسی انتشار کی جھلک دکھاتے ہیں۔ اختلاف رائے کو دشمنی سمجھ لیا گیا ہے۔ گفتگو کا معیار گر گیا ہے عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غیر یقینی کے بوجھ تلے مایوسی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ اور جب قوم کے دل میں امید کم ہو جائے تو زبان میں سختی اور رویوں میں تلخی بڑھ جایا کرتی ہے۔ مگر یہ تصویر پوری نہیں حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی بیشمار سمجھدار، معتدل، باشعور اور سنجیدہ افراد موجود ہیں۔ سیاست دان، دانشور، صحافی، سرکاری افسران، نوجوان اور عام شہری جن کی سوچ میں توازن اور دل میں ملک کے لیے اخلاص موجود ہے مگر انکی آوازیں کمزور ہیں جبکہ جذباتی بیانیہ زیادہ زور سے بولا جا رہا یے۔ وطن عزیز کو آج جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ دلیل پر مبنی مکالمہ، شائستگی کی بحالی اور ایسی قیادت جو قوم کو تقسیم نہیں، جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہو، قیادت وہی جو صرف سیاسی قوت نہ رکھتی ہو بلکہ اخلاقی قوت بھی رکھتی ہو جو قوم کے زخموں کو پہچانے اور ان ہر مرہم رکھ سکے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قومیں بحران سے گزرتی ہیں مگر جو قومیں بحران کو اپنا استاد بنا لیں وہ ٹوٹتی نہیں سنورتی ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ شدید ضرور ہے مگر ناقابل حل ہرگز نہیں بس ضرورت اس امر کی ہے ہم بطور قوم فیصلہ کر لیں کہ ہمیں شور نہیں شعور کے راستے پر چلنا ہے۔

Shares: