سیالکوٹ (باغی ٹی وی ،بیوروچیف شاہد ریاض کی رپورٹ) ایک طرف حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ گندم کی قیمتوں میں تاریخی کمی آئی ہے، دوسری طرف تندوروں اور ہوٹلوں پر روٹی کی قیمت مسلسل عوام کا منہ چِڑا رہی ہے۔ گندم 3900 روپے فی من سے کم ہو کر اب صرف2000سے 2400 روپے فی من میں فروخت ہو رہی ہے، مگر افسوس کہ سیالکوٹ میں روٹی اب بھی 15 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف غریب طبقے کے ساتھ سنگین مذاق ہے بلکہ ریاستی نااہلی کی کھلی علامت بھی ہے۔
جس گندم پر کسان کو مناسب نرخ نہیں دیا گیا، وہی سستی گندم عوام تک پہنچنے سے پہلے تندوروں کی چمنی میں جل کر مہنگائی کے دھوئیں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ روٹی کی لاگت میں نمایاں کمی کے باوجود کوئی تندور والا یا ہوٹل مالک قیمت کم کرنے کو تیار نہیں۔ جیسے انہیں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہو کہ جتنا چاہو لوٹو، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
عوام چیخ رہے ہیں، سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب گندم کی قیمت میں 1500 روپے فی من کمی ہو چکی ہے تو روٹی کی قیمت میں بھی کمی کیوں نہیں ہو رہی؟ کیا صرف اشرافیہ کو ریلیف دینا حکومت کا مقصد ہے؟ کیا غریبوں کے لیے اس ریاست میں صرف مہنگائی، بیروزگاری، اور ناانصافی ہی مقدر رہ گئی ہے؟ تندور مالکان کے منافع کے سامنے انتظامیہ کی بے بسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ فوڈ اتھارٹی، پرائس کنٹرول کمیٹی اور ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ صرف ائرکنڈیشنڈ بندکمروں میں فائلوں میں موجود ہیں، زمینی سطح پر ان کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا۔
عوامی حلقوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ روٹی کی قیمت فوری طور پر 8 روپے مقرر کی جائے، تندوروں اور ہوٹلوں پر روزانہ کی بنیاد پر چیکنگ کا موثر نظام بحال کیا جائے اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عوامی ردعمل کسی بڑے احتجاج کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
مہنگائی کے مارے عوام کے لیے روٹی اب ضرورت نہیں، خواب بنتی جا رہی ہے۔ اگر ریاستی ادارے فوری طور پر ہوش میں نہ آئے تو صرف معاشی بحران نہیں، معاشرتی بغاوت جنم لے سکتی ہے اورپھر تب سوال صرف روٹی کا نہیں، نظام کا ہوگا۔