سیالکوٹ(باغی ٹی وی ،بیوروچیف شاہدریاض)سوات میں سیلابی ریلے سے ایک ہی خاندان کے 18 افراد دریا میں بہہ گئے، 3 زندہ بچا لیے گئے، 7 کی لاشیں برآمد

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک ہی خاندان سیر کے لیے سوات گیا جہاں دریائے سوات پر افسوسناک سانحہ پیش آیا۔ دریا کے کنارے ناشتہ کرتے ہوئے اچانک آئے سیلابی ریلے میں خاندان کے 18 افراد بہہ گئے۔ ریسکیو اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 3 افراد کو زندہ بچا لیا جبکہ اب تک 7 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ باقی 8 افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثہ صبح 8 بجے کے قریب پیش آیا، جب سیاح ناشتہ کر رہے تھے اور کچھ بچے دریا کے قریب تصویریں بنا رہے تھے۔ اسی دوران بارش کے باعث دریا میں اچانک پانی کا بہاؤ تیز ہو گیا، جس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ریسکیو کے پہنچنے میں تاخیر پر متاثرہ خاندان نے افسوس اور غم کا اظہار کیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر سوات کے مطابق دریا کے قریب جانے پر پہلے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، تاہم سیاحوں کی جانب سے اس پابندی کی خلاف ورزی جاری ہے۔ متاثرہ سیاح کا کہنا ہے کہ بچے سیلفی لے رہے تھے، دریا میں اچانک پانی آیا اور ان کی موجودگی میں بچے ڈوب گئے، ریسکیو ٹیم تاخیر سے پہنچی اور بروقت مدد نہ دے سکی۔

سیر و تفریح کی غرض سے سوات جانے والا سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ سے تعلق رکھنے والا ایک ہی خاندان دریاۓ سوات کے بے رحم سیلابی ریلے کی نذر ہو گیا۔ المناک سانحہ اس وقت پیش آیا جب خاندان کے 18 افراد دریا کے کنارے ناشتہ کررہے تھے کہ اچانک دریا میں طغیانی آ گئی اور تمام افراد پانی میں بہہ گئے۔

ریسکیو حکام کے مطابق واقعہ صبح آٹھ بجے کے قریب پیش آیا، جب اہلِ خانہ بائی پاس کے قریب دریا کے کنارے بیٹھے تھے اور موسم خوشگوار ہونے کے باعث ناشتہ کررہے تھے۔ اس دوران اچانک پانی کے بہاؤ میں غیرمعمولی تیزی آئی جس کے نتیجے میں 18 افراد دریا میں بہہ گئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور آپریشن کا آغاز کیا گیا۔

اب تک 3 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے جبکہ 9 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ باقی 6 افراد کی تلاش تاحال جاری ہے۔ ریسکیو ٹیموں کے مطابق پانی کا بہاؤ شدید ہے جس کی وجہ سے تلاش میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

حادثے کا شکار ہونے والے افراد میں ڈسکہ کے رہائشی محسن غوری کی چار کمسن بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ میرب (17 سالہ، سیکنڈ ایئر کی طالبہ)، عجوہ (15 سالہ، میٹرک کی طالبہ)، شال (12 سالہ، ساتویں جماعت) اور انفال (7 سالہ، تیسری جماعت)۔ ان میں سے عجوہ اور میرب کی لاشیں مل چکی ہیں جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔

متاثرین میں محسن غوری کی بیوی، سالی توبینہ اسلام، ایک خالہ زاد بہن، ایک ڈاکٹر، اور چھ سالہ بچہ ایان شبباز بھی شامل ہیں جن کی لاشیں بھی شناخت ہو چکی ہیں۔ محسن اپنے سسرالی رشتہ داروں، دوستوں کی فیملیوں اور عزیزوں سمیت ایک ہی کوسٹر میں سیر کے لیے گئے تھے۔ گاڑی میں کل 35 افراد سوار تھے جن میں بیشتر کا تعلق محلہ لالاریاں اور پرانا ڈسکہ سے تھا۔

واقعہ چشم زدن میں خوشیوں بھرے سفر کو المیے میں تبدیل کر گیا۔ ایک متاثرہ سیاح نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ناشتہ کرکے چائے پی رہے تھے اور بچے دریا کنارے سیلفی لینے گئے۔ پانی کم تھا، لیکن اچانک ریلہ آیا اور سب کو بہا لے گیا۔ ریسکیو کو فوری اطلاع دی گئی لیکن وہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے بعد پہنچے، ان کی موجودگی میں ہی کئی بچے ڈوبے اور بچائے نہ جا سکے۔

ڈپٹی کمشنر سوات کے مطابق دریا کے قریب جانے اور نہانے پر دفعہ 144 نافذ ہے، مگر سیاح احتیاط نہیں کرتے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ضابطوں کی پابندی کریں تاکہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

دوسری جانب ڈسکہ شہر میں واقعے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، پورا شہر سوگوار ہے، ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل افسردہ ہے۔ اہل علاقہ اور سوشل میڈیا صارفین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دریا کنارے سیرگاہوں میں سخت حفاظتی اقدامات کیے جائیں اور سیاحوں کی حفاظت کے لیے مستقل سیکیورٹی اور نگرانی کا بندوبست کیا جائے۔

Shares: