سیالکوٹ سیلاب: ناقص نکاسی، نااہل کمپنی اور شہریوں کی فریاد

"حالیہ سیلاب نے شہر اقبال کو مفلوج کر دیا، گندے پانی اور تعفن سے شہری پریشان ہیں۔ اربوں کا ٹھیکہ لینے والی نااہل کمپنی صفائی میں ناکام رہی، شہریوں نے فوری معاہدہ منسوخ کرنے اور کرپٹ عناصر کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔”

تحریر: مدثر رتو، ڈسٹرکٹ رپورٹر، باغی ٹی وی، سیالکوٹ

حالیہ طوفانی بارشوں اور مکار دشمن بھارت کی جانب سے چھوڑے گئے سیلابی ریلے نے شہر اقبال کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سارا شہر اور گردونواح کے علاقے سیلابی پانی میں ڈوب گئے، مال مویشی پانی میں بہہ گئے اور ہزاروں ایکڑ اراضی پر تیار فصلیں تباہ ہو گئیں۔ سینکڑوں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں اور نکاسیِ آب کے باوجود کئی روز تک اندرونِ شہر اور نشیبی علاقوں میں چار سے پانچ فٹ پانی کھڑا رہا۔

واسا کا عملہ بھی دن رات سیلابی پانی نکالنے کے لیے مصروف رہا، مگر ہر طرف تعفن پھیلا ہوا تھا۔ نکاسیِ آب میں تاخیر اور تعفن کا ذمہ دار ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا ناآزمودہ اور نااہل عملہ ہے، کیونکہ بدقسمتی سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا اربوں روپے کا ٹھیکہ ایک انتہائی ناآزمودہ، نااہل اور مالی طور پر غیر مستحکم کمپنی کو دیا گیا تھا . جس کا اس سے قبل نہ تو کوئی تجربہ تھا اور نہ مبینہ طور پر کوئی مناسب مشینری۔ ہمارے ذرائع کے مطابق یہ جو کمپنی کے ظاہر کئے جانے والے مالکان ہیں وہ محض مہرے ہیں اور اصل مالک مبینہ طور پر پردہ نشیں ہیں۔

اس ناآزمودہ اور نااہل کمپنی کو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے سیالکوٹ، تحصیل سمبڑیال، ڈسکہ سمیت شکرگڑھ اور نارووال کا نہ صرف ٹھیکہ دیا گیا بلکہ دس فیصد ٹھیکے کی رقم، جو کہ کروڑوں روپے بنتی ہے، بطور ایڈوانس بھی ادا کی گئی۔ جب سے یہ کمپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہے شہر گندگی کے ڈھیر میں بدل گیا ہے اور ورلڈ بینک کی جانب سے دی گئی کروڑوں روپے مالیت کی مشینری کا بھی بیڑہ غرق ہو چکا ہے، مگر انہیں کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ ان کے کچرا اٹھانے کا نہ تو کوئی ٹائم فریم ہے اور نہ ہی کوئی مناسب ڈمپنگ پوائنٹس ہیں۔

پل ایک نیکا پورہ کے قریب، سکول نمبر 2 کے پاس، وزن کے لیے لگنے والے کانٹے کے سامنے سارا دن گندگی سے بھری ہوئی ٹرالیاں اور ڈمپرز کی لمبی قطاریں کھڑی رہتی ہیں جو ہر طرف تعفن پھیلا دیتی ہیں اور ٹریفک کا بلاک رہنا معمول بن چکا ہے۔ اسی جگہ سے بچے انتہائی تعفن سے گزر کر سکول جاتے ہیں اور کانٹے کے بالکل سامنے قبرستان ہے جہاں اکثر جنازوں کا گزرنا بھی انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔

یہ ناآزمودہ ٹھیکیدار گلی محلوں سے اٹھایا گیا کوڑا کچرا واپس انہی نالوں میں پھینک دیتے ہیں اور اسی وجہ سے سیلابی پانی کی نکاسی میں مشکلات پیش آئیں، کیونکہ کوڑے سے بھرے ہوئے شاپرز سیوریج کے پائپوں میں بلاکیج کا باعث بنے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق سیلاب سے قبل ناقص کارکردگی کے باعث اس نااہل کمپنی پر مبینہ طور پر بھاری جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھیکہ دینے سے قبل کن کن قومی اخبارات میں ٹینڈرز کے اشتہارات دیے گئے تھے اور ٹینڈرز کے وقت کتنی نامور کمپنیوں نے حصہ لیا تھا؟ اس ناآزمودہ کمپنی کو کس بنیاد پر اربوں روپے کا ٹھیکہ دیا گیا جس نے شہر اقبال کو گندگی کے ڈھیر میں بدل دیا ہے؟ حالانکہ اس کمپنی سے پہلے سیالکوٹ اندرونِ شہر اور گردونواح میں صفائی ستھرائی کی مثال تھی۔

شہریوں نے اربابِ اختیار سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر اس ناآزمودہ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کر کے کسی تجربہ کار کمپنی کو ٹھیکہ دیا جائے، اور ساتھ ساتھ جن کرپٹ ٹھیکیداروں نے اربوں روپے کی لاگت سے سڑکیں بنوائیں انہیں بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اُن سرکاری افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جن کے دستخطوں سے مبینہ طور پر بھاری بل پاس ہوئے تھے؛ ان قومی مجرموں کی جائیدادیں ضبط کر کے نیلام کی جائیں اور رقم قومی خزانے میں جمع کروائی جائے، اور انہیں سخت ترین سزائیں دلوانی جائیں۔

Shares: