سیالکوٹ، باغی ٹی وی( بیورو چیف شاہد ریاض کی خصوصی رپورٹ)اسٹرابری جو کبھی آسمانوں کی سیر کرتی تھی، اس سال زمین پر آ گری۔ مارچ کے آغاز میں 600 روپے فی کلو تک فروخت ہونے والی یہ رسیلی لذت اب 150 سے 100 روپے کلو تک گر چکی ہے، مگر پھر بھی خریدار اسے ہاتھ لگانے کو تیار نہیں۔ آخر وجہ کیا ہے؟

اس دلچسپ کہانی کے پیچھے اصل راز کاشتکاروں اور دکانداروں کی اپنی ہاتھوں سے کی گئی زیادتی ہے۔ اس سال انہوں نے اسٹرابری کی شیلف لائف بڑھانے کے چکر میں اینٹی فنگس دوائیں اور کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال کیا، جو کہ مقررہ مقدار سے کہیں زیادہ تھا۔ نتیجہ؟ اسٹرابری کا ذائقہ اور معیار دونوں برباد ہوگئے۔ دکانداروں نے بھی اسے مزید خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کم کوالٹی کے پھل کو مصنوعی لال رنگ میں رنگ کر بازار میں پیش کر دیا گیا۔ ایسی اسٹرابری جو نہ صرف شاپر کو رنگ دیتی ہے بلکہ دھونے پر بھی اس کا رنگ چھوڑتی ہے—ایسا عجیب منظر شاید ہی کبھی دیکھا گیا ہو!

جب یہ معاملہ منظر عام پر آیا تو مختلف اضلاع سے لیے گئے نمونوں کی جانچ نے چونکا دینے والا انکشاف کیا: اسٹرابری پر اینٹی فنگس اسپرے اور کیڑے مار ادویات کا استعمال معمول سے 70 فیصد زیادہ تھا۔ دوسرے پھلوں کے برعکس، جن کا چھلکا ہموار ہوتا ہے اور دھونے سے کیمیکلز کے اثرات کم ہو جاتے ہیں، اسٹرابری کی کھردری اور مسام دار سطح ان زہریلے مادوں کو اندر تک جذب کر لیتی ہے۔ نتیجتاً، دھونے کے باوجود یہ باقیات مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں۔

اگر آپ بھی اسٹرابری کے شوقین ہیں تو احتیاط کریں۔ اسے کھلے پانی میں اچھی طرح دھوئیں، پانی میں تھوڑا سا میٹھا سوڈا ملا کر 10 منٹ تک بھگوئیں، پھر چھلنی میں ڈال کر دوبارہ دھو لیں۔ اس کے بعد ہی استعمال کریں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ پھل، جو بچوں اور بڑوں کا پسندیدہ ہے اور جس سے ہم کروڑوں روپے کا زرمبادلہ کماتے ہیں، آج بازاروں میں دھکے کھا رہا ہے۔ چند لالچی افراد نے اپنے فائدے کے لیے اسے زہر آلود کر دیا اور پوری فصل کی ساکھ داؤ پر لگا دی۔ خریداروں کے بائیکاٹ سے آڑھتیوں کو اس سال شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ امید ہے کہ اگلے سال یہ کاشتکار اور دکاندار اس کھٹے میٹھے پھل کو زہر میں تبدیل کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔

یہ رپورٹ ان لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے جو سستی کے لالچ میں اسے بے دھڑک خرید رہے ہیں—جان ہے تو جہان ہے، احتیاط کریں!

Shares: