سیالکوٹ (باغی ٹی وی، رپورٹ: شاہد ریاض)چھ ماہ میں 4831 نوجوان بیرونِ ملک روانہ، 60 فیصد تعلیم یافتہ، مقامی روزگار پر سوالیہ نشان، جنوری تا مارچ 2025 کے دوران، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 172,144 پاکستانی نوجوان بیرونِ ملک روزگار کی تلاش میں روانہ ہوئے
تفصیل کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں ضلع سیالکوٹ سے 4831 نوجوان بہتر مستقبل اور روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک روانہ ہو گئے، جن میں سے 60 فیصد تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان شامل ہیں۔ معاشی بحران، مہنگائی اور مقامی سطح پر روزگار کے محدود مواقع نے نوجوانوں کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان نوجوانوں نے زیادہ تر سعودی عرب، قطر، بحرین، عمان، ملائیشیا اور دبئی جیسے مشرق وسطیٰ کے ممالک کا رخ کیا، جہاں وہ تعمیرات، خدمات، صنعتی اور ٹیکنیکل شعبوں میں ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ضلع سیالکوٹ کی پانچوں تحصیلوں — سیالکوٹ، ڈسکہ، پسرور، سمبڑیال اور ان کے گردونواح — سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان نہ صرف ہنر مند تھے بلکہ کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے، جنہیں وطن میں ان کے معیار کے مطابق روزگار دستیاب نہ ہو سکا۔
اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان میں سے 83 نوجوان یورپ اور امریکہ گئے، جن میں سے کچھ نے وہاں مستقل سکونت اختیار کر لی ہے جب کہ کچھ نوجوان تعلیم یا اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت کی غرض سے ان ممالک میں موجود ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق یہ مسلسل "برین ڈرین” پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایک طرف حکومت نوجوانوں کو روزگار دینے کے دعوے کرتی ہے، دوسری جانب پڑھے لکھے افراد کی بڑی تعداد ملک چھوڑ رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تعلیم یافتہ طبقے کی ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک میں نہ صرف افرادی قوت کا خلا پیدا ہو گا بلکہ مقامی ترقیاتی ڈھانچے پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بڑھانے، انڈسٹریل زونز کے قیام اور کاروبار دوست پالیسیوں کے نفاذ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے تاکہ نوجوانوں کو ہجرت پر مجبور ہونے سے روکا جا سکے۔ بصورت دیگر، پاکستان کے ترقی کے خواب صرف ہنر مندوں کے ایکسپورٹ تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔
یاد رہے سیالکوٹ کے علاوہ پاکستان میں رواں سال کے پہلے تین ماہ یعنی جنوری تا مارچ 2025 کے دوران، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 172,144 پاکستانی نوجوان بیرونِ ملک روزگار کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان میں سے 99,139 عام مزدور، 38,274 ڈرائیورز، 1,859 مستری، 2,130 الیکٹریشنز، 3,474 ٹیکنیشنز، 1,058 ویلڈرز، 849 ڈاکٹرز، 1,479 انجینئرز، 390 نرسز اور 436 اساتذہ شامل تھے۔ ان اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نہ صرف ہنر مند بلکہ تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افراد بھی مقامی مواقع کی کمی کے باعث بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہیں۔ اگر چھ ماہ کے اعداد شمار مل جاتے تو یہ تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہوتی، ماہرین کے مطابق یہ رجحان پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ اور غیر یقینی مستقبل کی عکاسی کرتا ہے، جو ملک کی ترقی کیلئے ایک سنجیدہ خطرے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔








