کل پنجاب اسمبلی میں ایک بڑا سیاسی دنگل ہوا اوربالآخر تخت پنجاب کا فیصلہ ہو ہی گیا۔ آخر وقت تک صورتحال بالکل مختلف تھی ، پاکستان تحریک انصاف والے خوش تھے۔ اور پھر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے رولنگ دے کر ساری بازی ہی پلٹ دی ۔سارے اندیشے ، ساری تدبیریں ، سارے دعوے بیکار ہوگئے
بحر حال معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے ،تحریک انصاف کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ جس سیاسی چال کا سہارا انھوں نے آج سے چار مہینے پہلے لیا تھا، جس سیاسی چال پر وہ اترا رہے تھے۔ جس سیاسی چال سے انھیں یہ وہم ہوا تھا کہ ہم اقتدار کی کرسی بچا لیں گے۔ کل انھیں اس سے بھی بڑی سیاسی چال سے شکست دی جائے گی۔ انھیں نہیں پتا تھا آج سے چار دن پہلے جس جیت کے وہ شادیانے بجا رہے ہیں اس سے انھیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا۔ مکافا ت عمل ایسا ہی ہے۔ جب انسان کا کیا اس کے سامنے آتا ہے تو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہاں اخلاقیات کے سارے سبق بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ جو وقت پہ بہتر سیاسی چال چلے وہی بازی گر ہے اور جس کا اس شطرنج کے کھیل میں وزیرزیادہ شاطر ہے وہی مقدر کا سکندر
اب آگے کی ساری صورتحال مجھے کافی بھیانک نظر آ رہی ہے۔
کل کے اسمبلی اجلاس سے پہلے ہی عمران خان نے کہا تھا کہ اگر ہمارے حق میں فیصلہ نہ آیا تو نتائج اچھے نہیں ہونگے۔ اور وہ ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ رات احتجاج کی کال دی گئی اور رات سے ہی لوگ سڑکوں پر ہیں۔ سپریم کورٹ رجسٹری کے سامنے نعروں سے شروع ہونے والے اس جتھے کا پورے ملک میں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت سے پنجا ب کے تمام بڑے شہروں میں رینجرز تعینات کرنے کی بھی درخواست کر دی ہے۔مختلف ویڈیوز بھی موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے لوگ گاڑیوں کا گھیراؤ کر رہے ہیں۔ حیدرآباد میں صورتحال اس سے زیادہ سنگین ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے درمیان تصادم دیکھنے میں آیا ہےاور اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے کسی کارکن کی گاڑی تک جلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں ملک پاکستان کی صورتحال کافی سنگین مراحل میں داخل ہو سکتی ہے۔
مخالفین پر الزامات کے ساتھ ساتھ اب اداروں پر لفظی حملوں کا جو سلسلہ سست روی کا شکار ہو چکا تھا اب اس میں بھی تیزی دیکھنے کو ملے گی۔ اس کی پہلی جھلک تو آج ہی دیکھ لی ہے۔ فواد چوہدری نے لفظی گولہ باری کی ابتدا کر دی ہے۔ اداروں کے منہ کو خون لگا ہے جیسے بیان تو دیتے ہی تھے اب یہ بھی کہ دیا کہ ادارے مزید پاکستان کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔ تو یہ معاملات ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگاڑ کی جانب گامزن ہیں۔لیکن اس وقت سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سب کا نقصان کس کو ہو رہا ہے؟ اس ساری سیاسی جنگ اور الزامات کی سیاست کے درمیان پس کون رہا ہے؟ اس سیاسی محاذ آرائی کے درمیان بچے کس کے بھوک سے مر رہے ہیں؟ حکمرانوں کے پاس شاید اس سوال کا جواب نہ ہولیکن میرے پاس اس کا جواب ہے
اس ساری سیاسی صورتحال، لڑائی جھگڑوں اور معرکہ آرائی کے درمیان نقصان صرف پاکستان کا ہو رہا ہے۔ پس صرف غریب رہا ہے۔ بچے صرف غریب کے بلک رہے ہیں۔ اس کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ اس کے لیے زمین دن بدن تنگ پڑتی جا رہی ہے او ر حکمرانوں کی عیاشیاں ختم نہیں ہو رہیں۔ اپنی سیاست بچانے کےلیے کروڑوں روپے کے مہنگے ہوٹل بک ہو رہے ہیں۔ غریب کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ملکی سیاست میں اس وقت کیا جنگ جاری ہے۔ اسے صر ف دووقت کی روزی سے مطلب ہے۔ اسے صرف اس بات سے مطلب ہے کہ اس کے بچے رات کو بھوکے پیٹ نہ سوئیں۔ اسے صرف اس بات سے مطلب ہے کہ وہ جب رات کو مزدوری کر کے گھر واپس لوٹے تو اس کی جیب میں اگلے دن کے راشن کے پیسے موجود ہوں۔اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
یہ صرف اس صور ت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ملک میں ایک سیاسی استحکام کی فضا قائم ہو جائے۔ جب پاکستان کے نمائندے آپس میں لڑنے کی بجائے ایک جگہ بیٹھ کر پاکستان کے مستقبل کے سنجیدگی کے ساتھ فیصلے کرنا شروع کر دیں۔ جب پاکستان کے سیاستدان مل کر ایک میثاق معیشت پر رضا مند ہو جائیں۔ جب سیاستدان لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے کی بجائے انھی لوگوں کے بہتر مستقبل کےلیے سوچنا شروع کر دیں۔ لیکن مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مجھے دور دور تک کوئی ایسے امکانات نظر نہیں آ رہے۔
آپ کو اور اس ملک کے حکمرانوں کو پاکستان کی معیشت کا ایک بھیانک چہرہ بتاتا چلوں تا کہ شاید ہم اس سے کچھ سیکھ سکیں اور مستقبل قریب میں کچھ ایسے فیصلے کر سکیں جن سے ملک کا فائدہ ہو۔ آج پاکستان میں روپیہ ایک خطرناک حد تک بے توقیر ہو چکا ہے۔ گردشی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ پاکستان آج ڈیفالٹ ہونے کی دہلیز پہ کھڑا ہے۔ پاکستان کا اس وقت ڈیفالٹ ہونے والے ممالک کی لسٹ میں چوتھا نمبر ہے اور یہ امکانات دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ڈالر پر سٹے بازی جاری ہے جس سے روپے کی قدر و قیمت میں مزید کمی آتی جا رہی ہے لیکن جو اس کو روک سکتا ہے یعنی پاکستا ن کاسٹیٹ بینک اس کے ممکنہ گورنر کا ابھی تک فیصلہ ہی نہیں ہو سکا۔ تیل اور بجلی قیمتیں مزید بڑھنے کے درپے ہیں۔ اور معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت آج جن بیساکھیوں پہ کھڑ ی ہے اگر اگلے کچھ عرصے میں چار سے پانچ ار ب ڈالر نہیں ملتے تو ہم اس نہج پر پہنچ جائیں گے جہا ں سے واپسی شاید آسان نہ ہو۔آئی ایم ایف سے ہمیں صرف ایک ارب ڈالر کی قسط ملے گی باقی کے تین چار ارب ڈالر کے لیے ہم ہمیشہ کی طرح سعودی عرب کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ دنیا کی معیشت پر نظر رکھنے والیNews Agency Bloombergکے مطابق آئی ایم ایف نے سعودی عرب سے گارنٹی مانگ لی ہے۔ کیونکہ اس کشتی میں کوئی سوار نہیں ہونا چاہتا جس کے ملاح بھنو ر میں کودنے کو تیار بیٹھے ہوں۔پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کےلیے آئندہ سال میں کم ازکم 41ارب ڈالر درکار ہیں۔ اور یہ کہاں سے آتے ہیں کسی کے پاس سیدھا جواب نہیں ، سٹاک ایکسچینج کو دیکھیں تو دن بدن زوال پزیر ہی ہو رہی ہے۔ سرمایہ کار اس بات پہ تیار ہی نہیں ہیں کہ وہ پاکستان میں مزید نقصان کو مول لیں۔ پہلے ہی ان کا اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہےاور حالیہ سیاسی بحران کے بعد تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو چکی ہے۔ بیرونی سرمایہ کار بھی بالکل خطرہ مول لینے کو تیار نہیں اور ہر چھوٹا بڑا کاروبار مندی کا شکار ہے۔ دنیا کی تما م معیشت پر نظر رکھنے والے تمام بڑے ادارے پاکستان کی معیشت کو منفی دکھا رہے ہیں۔ گویا ہم معیشت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے کرنسی بحران میں جکڑے جا چکے ہیں جہاں سے نکلنے کا ٹھیک جوا ب کوئی دینے کو تیا رنہیں۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ ہم یہاں تک پہنچے کیسے ہیں؟ اس کا جواب بڑا ساد ہ اور آسان سا ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت ہمیشہ اس ملک کے حکمرانو ں کے فیصلوں اور ملک میں سیاسی استحکام سے جڑ ی ہوتی ہے۔ اگر ملک کےسیاستدان درست فیصلے کریں گے، سنجیدگی سے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے ، درست وقت پر درست لوگوں کے ہاتھ میں اکانومی کی باگ دوڑ دیں گے تو معیشت کی سمت بالکل درست ہو گی۔اور اگر ملک میں سیاسی استحکام ہی نہ ہو۔ حکمرانوں کو ٹھیک فیصلے ہی نہ کرنے دیے جائیں تو پھر یہی کچھ ہونا ہے جو ملک پاکستان میں اب ہو رہا ہے۔اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک صورتحال تو آپ کے سامنے واضح ہے۔ ملک میں پچھلے چھ مہینوں سے جو کچھ ہو رہا ہے ۔ جو سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے کوئی سیاسی جماعت دیوار سے لگے یا نا لیکن معیشت دیوار کے ساتھ لازمی طور پر لگ چکی ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے محرکات ہیں۔ حالات و واقعات کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ جن میں تحریک انصاف کے دو ر کی معاشی پالیسیاں، ان کا بھاری قرضے لینا۔ اس کے بعد ساڑھے تین سال کے عرصے میں چار بار وزرائے خزانہ کی تبدیلی ، سرکاری پالیسیوں کی بار بار تبدیلی شامل ہیں۔ اور اگر اس سے بھی پہلے چلے جائیں تو پچھلے حکمرانوں کے کچھ غلط فیصلے شامل ہیں۔اب وہ وقت آ چکا ہے جب ہمار ے سیاستدانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور دھکا دے کر اس ملک کو لوگوں کی امیدوں کو کچل دینا ہے یا اس ملک کو ہر طرح کے بحران سے نجات دلانی ہے۔ کیونکہ راستے اب صرف دو ہی بچے ہیں۔ اور یہ ہمارے سیاستدانوں نے طے کرنا ہے کہ مزید دست و گریباں ہوتے رہنا ہے اور اس اقتدار کے کھیل کے لیے پاکستان کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا دینا ہے یا پھر اپنے سیاسی مفادات کو پیچھے رکھ کر ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنا ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستان کا سیاسی مستقبل کیا ہوتا ہے اس بارے میں کسی کو علم نہیں۔ کون منظر نامے پہ نمودار ہوتا ہے اور کون پردے کے پیچھے غائب ہوتا ہے اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا لیکن ہماری دعا یہی کہ جو بھی ہو پاکستان کے لیے بہتر ہو۔ پاکستا ن کی معیشت کے لیے بہتر ہو۔ پاکستان کے عوام کے لیے بہتر ہو۔