ہماری قوم ہر دو چار سال بعد تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہے یعنی انتخابات قوم اور سیاسی جماعتوں کے اتحاد ماضی میں دیکھے۔ تحریکیوں کا بھی دور دیکھا۔ پی این اے ، یو ڈی ایف ، ایم آرڈی ،ملی یکجہتی کونسل ،اسلامک فرنٹ ، اسلامی جمہوری اتحاد ، متحدہ شریعت محاذ ، تحریک نظام مصطفی ، تحریک تحفظ نبوت ، تحریک ناموس رسالتۖ ، تحریک ناموس صحابہ۔ قومی ہیروز کے کئی روپ دیکھے ، مارشل لاء دیکھے ،جمہوری حکومتیں دیکھیں۔ آمریت اور جمہوریت کو ساتھ ساتھ چلتے دیکھا۔ مگر ا فسوس نہ معیشت مستحکم ہو سکی اور نہ ہی علماء کرام آپ ۖ کی ایک حدیث مبارک پرعمل کروا سکے۔ جو ملاوٹ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ۔ ملک کے تمام صوبے ملاوٹ کی زد میں ،کھانے پینے سے لے کر ادویات تک سرے عام ملاوٹ ہو رہی ہے ۔ معیشت کا یہ عالم ہے کہ کاسہ گدائی ہاتھ میں لے کر دنیا میں گھوم رہے ہیں۔ ریاست سے محبت کا یہ عالم ہے کہ مسائل میں گری قوم کو بنگلہ دیش اور اب شام کی مثالیں دے کر خوف زدہ کیا جا رہاہ ے ۔غیر ملکی سرمایہ کاروں پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے ، کیا کبھی کسی نے سوچا؟ ان افواہوں کا اثر ملک وقوم پر کیا پڑتا ہے ؟

جہاں تک عرب ممالک کاتعلق ہے ، کشمیری مائوں ، بہنوں ،بچوں ،نوجوانوں اور بوڑھوں کا بھارتی افواج نے قتل عام کیا۔ عرب ممالک بھارت میں سرمایہ کاری بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں۔ فلسطین میں کیا ہوا اور کیا ہو رہاہ ے۔ عرب ریاستیں جو اپنے پیسے کی بناء پر اُچھلتی ہیں۔وہ بھی غزہ کی صورت حال کو سامنے رکھاجائے تو ریت کی دیوار ثابت ہو رہی ہیں۔ امریکہ اورمغربی ممالک کی ترقی کا راز علم اور عمل ہے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آج کا نوجوان طبقہ ان مفاد پرست سیاستدانوں کے ہاتھ میں کیسے چڑھ گئے جو سیاستدان کو جانتے تک نہیں یہ اپنے عزیزوں کے ساتھ بھی دست و گریبان ہو رہے ہیں۔ پاک فوج اور جملہ اداروں پر بہتان تراشیوں کے نشتر چلائے جا رہے ہیں ،جمہوریت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ گھوڑے بے لگام ہو جائیں۔ سیاسی بداخلاقیاں ، بہتان تراشی،افوا سازی ، کیا عالمی دنیا میں پاکستان کے وقار کو نقصان نہیں پہنچا رہی ؟ سیاسی قائدین اس ملک پر رحم کریں ۔ اس ملک کے وقار میں اضافہ کریں۔ اپنے ذاتی مفادات ، اختیارات اور پروٹوکول کی خاطر ملکی وقار کو دائو پر لگانے سے گریز کریں

Shares: