(تجزیہ شہزاد قریشی)
میاں محمد نواز شریف نہایت ہی زیرک مدبراور سیاسی دائو پیچ کے ماہر سیاستدان ہیں۔ نواز شریف کے زمانہ وزارت عظمٰی کے دوران نجی شعبہ کے تعاون سے ملکی صنعت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ غازی بروتھا اور گوادر بندرگاہ جیسے منصوبے شروع کیے گئے۔ سندھ کے بے زمین ہاریوں میں زمینیں تقسیم کی گئیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تعلقات مستحکم کئے گئے۔ اقتصادی تعاون تنظیم کو ترقی دی گئی ۔ لیکن بدقسمتی سے اُن کی حکومت کو ہر بار کسی نہ کسی بہانے گرا دیا گیا۔ عوام کے منتخب وزیراعظم کو کبھی خاندان سمیت جلا وطن کردیا گیاکبھی اٹک قلعہ میں بند کردیا گیا۔ کبھی راولپنڈی سے لاہور جیلوں میں بند کردیا گیا ۔ جواں سال بیٹی کو بھی والد کے ساتھ جیل میں بند کردیا گیا۔ نواز شریف اور مریم نواز شریف کو کون سمجھائے سیاست کے معیار بدل گئے ۔سیاست کے آداب بدل گئے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت سیاسی جماعتوں کی قیادت نہ جانے کن لوگوں کے پاس چلی گئی ۔ قوم ایک ہنگامے کا نام بنتی جا رہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر سے نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آنے لگیں۔ نواز شریف کے دور اقتدار کی حکومتی پالیسیوں سے اتفاق یا اختلاف الگ بات ہے تاہم نواز شریف شرم وحیا والے حکمران تھے آج بھی نواز شریف کے حسن سلوک کا اعتراف کیا جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی گلیاروں میں ہنگامے کی ایک وجہ لیڈر شپ کا فقدان ہے اور اس فقدان کا سامنا مسلم لیگ(ن) کو بھی ہے۔ معاشی بحران اتنا بھی بے قابو نہیں جسے حل نہیں کیا جا سکتا ۔ نواز شریف کے نامزد کردہ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کیا پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے نہیں بچایا؟
لیکن نواز شریف کی ہی جماعت کے کچھ لوگوں نے اسحاق ڈار کو نشانے پر رکھا۔ جس طرح پورے ملک میں خوراک ملاوٹ شدہ دستیاب ہے اسی طرح سیاست میں بھی ملاوٹ ہو چکی ہے ۔ ملاوٹی سیاستدانوں نے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے ۔ پنجاب میں یکے بعد دیگرے واقعات نے ہلا کر رکھ دیا ہے بہاولپور یونیورسٹی اور دوسرا گھریلو معصوم بچی پر وحشیانہ تشدد، یونیورسٹی کی بچیاں اور گھریلو ملازمہ گلشن وطن کا سرمایہ ہیں ۔ ان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو اس طرح کے واقعات نہ ہوتے مگر افسوس 75 سال ہو گئے ملک میں قانون کی حکمرانی کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا۔ انسانیت سوز وحشیانہ پن کے سدباب کے قانون پر سختی سے عمل کیا جائے۔