تجزیہ:شہزاد قریشی
ترکی کے انتخابات کو بین الاقوامی میڈیا نے بہت زیادہ کوریج دی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردگان سلطنت عثمانیہ کی شان کو زندہ رکھنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ وہ اس میں کا میاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ ملکی وطن عزیز کے سیاستدانوں اور مذہبی جماعتوں کے کیا عزائم ہیں۔ اس کا اندازہ 9 مئی اور اسکے بعد سپریم کورٹ کے باہر ڈنڈا بردار فورس جس کی قیادت مولانا فضل الرحمن اور دیگر جماعتوں نے کی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے کیا عزائم ہیں۔ معذرت کے ساتھ وطن عزیز کے سیاستدانوں نے اس ملک کو اپنی سلطنت سمجھ لیا ہے اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے کسی بھی وقت اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے ہر حد کراس کر سکتے ہیں۔ بوقت ضرورت آئین کو پامال کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دے سکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں سیاست کا بازار گرم ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے اندازوں کے ذریعے کہانیاں مل رہی ہیں قوم بھی مصروف ہے سیاستدان بھی مصروف ہیں کاروبار مفلوج ہے۔ عمران خان نے اپنا سیاسی نقصان بہت کیا ہے سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔
آنے والا وقت کس سیاستدان کا ہوگا یہ بھی کہنا قبل از وقت ہے پلوں کے نیچے سے نہیں اوپر سے بھی پانی بہہ رہا ہے بلکہ سیلاب بہہ رہا ہے۔ وطن کی افواج اور اسکے نہایت ہی بلند ہمت سابقہ اور موجودہ جرنیلوں نے ملک کو نہ صرف دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کیا اس کی مثال عالمی دنیا دے رہی ہے ضرب عضب اور رد الفساد کی مثالیں قوم اور بالخصوص نوجوان طبقہ کے کے علم میں ہیں اس کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ بھی سر انجام دیا جا رہا ہے۔ سیاستدان اپنی جماعتوں میں موجود ایسی لابیوں کو باہر نکال پھینکیں جو ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں سیاسی جماعتوں کی صفوں میں ایسی لابیاں موجود ہیں یہ ملک دشمن قوتیں ہیں جو سیاسی جماعتوں کی صفوں میں رہ کر ہماری قومی سلامتی پر وار کرتی ہیں۔ قوم اور بالخصوص نوجوان طبقے کو اپنے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف سازش کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ ملک کی عزت وقار اور سلامتی کے لئے اپنے قومی اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔