سیاسی آقاء اور ہماری بھولی عوام . تحریر:محمد محسن

0
60

ھم روز اپنے ارد گرد لوگوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کے بارے میں بحث کرتے ھوئے دیکھتے ہیں۔ کوئی پاکستان مسلم لیگ ن کا حامی ھے تو کوئی پاکستان پیپلز پارٹی کا جیالا ۔ کسی کے سامنے عمران خان اس ملک کے حالات بدلنے کی آخری امید ہے۔ اور کوئی مزہبی حمایت رکھنے والا جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں سافٹ کارنر رکھتا ہے۔ جمہوری سیاسی نظام کی یہی خوبصورتی ھوتی ھے کہ اس میں ہر بندے کو کھل کر اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ مختلف لوگوں کی مختلف جماعتوں کے ساتھ وابستگی میں کوئی برائی نہیں بلکہ یہی تو جمہوریت کا حسن ھوتا ھے کہ جتنی اپوزیشن مضبوط ھو گی اتنا ہی سیاسی نظام ا چھا چلے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ھمارے جیسے ممالک میں نہ ہی تو اصل جمہوری نظام پایا جاتا ھے اور نہ ہی عوام اس لائق ھوتے ھیں کہ جمھوری نظام کو سمجھ سکیں اور اسکو اپنے معاشرے میں رائج کر سکیں۔ دوسری طرف ھماری عوام مختلف سیاسی جماعتوں کو لیکر اتنی جزباتی ھو جاتی ھے کہ بعض اوقات نوبت لڑائی جھگڑے تک آجاتی ہے۔ ھمارے ملک میں اس وقت تقریباً 22 کروڑ کی آبادی ھے جو الحمدللہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ خیر اس آبادی کا اس وقت زیادہ تر حصہ نوجوان لوگوں پر مشتمل ھے جو کہ اس ملک کی گلی کوچوں میں دھکے کھا رھا ھے۔ یہ عوام جتنے ویلے ہو گے اتنے ہی اک دوسرے کے ساتھ زرا زرا سی بات پر جھگڑتے رہیں گے۔ خیر بات ھو رھی تھی سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی تو جب ملک کی زیادہ تر آبادی ویلی بیٹھی ھو گی تو سیاسی جماعتوں کے نام پر لڑنا جھگڑنا تو ان کے لیے معمولی چیز ھو گی۔ حالانکہ ان معصوم لوگوں کو یہ پتہ نہیں ھو گا کہ یہ جن کے لیے دن رات اک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے ہیں ان کو ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہو گا اور وہ اکثر اک دوسرے سے ملتے جلتے ھوں گے اور خوش گپیاں لگاتے ھوں گے۔ ویسے بھی جیسا ھمارا سیاسی نظام ھو گا عوام بھی ویسے ہی ھوں گے۔

اگر آپ پاکستان کے سیاسی نظام کی تاریخ میں جائیں تو ایسے ھی لگتا ہے جیسے آپ کسی اکھاڑے کی کشتی کے بارے میں پڑھ رھے ھیں جو کہ کبھی کبھی تو بھت جلد پچھاڑے جاتے ہیں تو بعض اوقات دوسروں کو ٹف ٹائم دیتے ہیں۔ اور کبھی کبھار ریفری خود یونیفارم پہنے ہوئے میدان میں کود پڑتے ہیں اور اس سیاسی اکھاڑے کا خود بیڑا اٹھا لیتے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد اس ملک کا سب سے بڑا نقصان یہ ھوا کہ ھمارے قائد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بعض اوقات تو دل و دماغ میں یہی بات اٹک کر رہ جاتی ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے انکو اک فریضہ سونپا ھوا تھا جنکو پورا کرتے ھی اسکو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ پہلے پانچ سات سال میں کئی وزیراعظم تبدیل ھونے کے اسکندر مرزا نے ملکی تاریخ میں پہلی بار مارشل لاء لگا کر آرمی کو اس ملک کے سیاسی نظام میں داخل کر دیا۔ اسکندر مرزا نے ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا تو بعد میں ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا۔ ایوب خان نے ملکی تاریخ کا پہلا آئین ختم کر کے پانچ سال بعد 1962 میں دوسرا آئین متعارف کروایا۔ خیر عروج کو آخر زوال تو آنا ھی ھوتا ھے۔ تقریباً 10 سال اقتدار کے مزے لینے کے بعد بجائے جمھوری نظام کی راہ ہموار کرنے کے ایوب خان نے آگے پھر اقتدار اک اور ملٹری ڈکٹیٹر کو ٹرانسفر کر دیا جسکے ساتھ ہی یحییٰ خان نے ملکی تاریخ میں دوسرا مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یہ مارشل لاء سب سے سنگین ثابت ھوا کیونکہ اس کے دوران ملک دولخت ہوگیا۔ اس طرف بھٹو کی حکومت آگئی اور دوسری طرف مجیب الرحمٰن کی۔ بیچ میں یحییٰ خان جو کہ صدارتی سیٹ پر براجمان رہنا چاھتا تھا اس نے ملک کا بیڑا غرق کیا نہ اس طرف کا رھا نہ اس طرف کا۔ اس کے بعد پاکستان کی باغ دوڑ بھٹو کے ھاتھوں میں آگئی اور ملک اپنی ڈگر پر چلنے لگا لیکن آخر کب تک چلتا۔۔۔۔۔بھٹو کے خلاف بھی پاکستان نیشنل الائنس بنا اور اک بار پھر سے ملک میں وھی شروع والی حالت آگئی۔ آخر نتیجہ جو بھی نکلا وہ آپ کے سامنے ہے کہ اسی جمھوری نظام کی ہی وجہ سے ملک اک بار پھر مارشل لاء کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق نے 3 ماہ میں الیکشن کروانے کا وعدہ کر کے تقریباً 11 سال اس ملک کی صدارتی کرسی پر گزارے۔ بعد میں جمھوریت کا اک ایسا دور شروع ہوا کہ ملک دن بدن اکانومی اور ڈیولپمنٹ کے لحاظ سے پیچھے ہی گیا جسکی بنیادی وجہ طاقت کی بھوک تھی۔ اس کے بعد اک بار پھر ملٹری ڈکٹیٹر نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور تمام جمھوری سیاسی پارٹیوں کو چلتا کیا وہ الگ بات بعد میں کچھ مخصوص سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ مل گئی جیسا کہ پہلے ھوتا آیا ھے۔ خیر اکیسویں صدی جمھوریت کے لحاظ سے پاکستان کے لیے سود مند ثابت ھوئی۔ پچھلے تقریباً 12 سال سے ملک میں جمہوریت کی فضا قائم ھو گئی ھے۔ اس پوری پاکستانی سیاسی تاریخ میں اک بات سامنے واضع ھوتی ھے کہ ھمارا سیاسی نظام اک اکھاڑے کی مانند ہے جسکا یہاں زور چلتا ہے وہ خوب چلاتا ہے۔ جس نے بھی اپنے مفاد کے لیے دوسرے کی راہ ہموار کی وہ اسی کا شکار بنا۔ اسکندر مرزا ایوب خان کو لے کر آیا تو ایوب خاں نے اسے چلتا کیا۔ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستانی سیاست میں متعارف کروایا تو بھٹو نے ایوب اعلیٰ عہدوں کے مزے لینے کے بعد ایوب خان کے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کھڑی کر دی اور اسکو چلتا کیا۔ اسی طرح یحییٰ خان، بھٹو اور مجیب الرحمٰن نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر اس ملک کو ہی دولخت کر دیا۔ اسی طرح بعد میں جنرل ضیاء الحق نے اپنی حکومت کی طاقت بڑھانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ جیسی پارٹیوں کے لیے راہ ہموار کی تو اس کے جانے کے فوراً بعد انہوں نے ملٹری سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور آج تک کر رہی ہیں۔

اس سارے سیاسی منظر نامے کو بیان کرنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ یہ پہلی پاکستانی عوام نہیں جو اپنے اپنے سیاسی لیڈروں کی خاطر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ یقین جانو آپ سے پہلے بھی یہاں کئی نسلیں گزر چکی ہیں جن میں سیاسی انتہا پسندی آپ سے کہیں زیادہ تھی اور یقین جانو ان بے چاروں کو بھی یہاں کچھ حاصل نہ ہوا۔ ان سیاسی آقاؤں کے سامنے آپکی اوقات اک کیڑے مکوڑے کی سی ہے جسکو جب چاھے استعمال کیا جاتا ہے اور جب چاہے تو مسل کر رکھ دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ہر گفتگو کا شرف حاصل کرنے والے عزیر بلوچ کی ہی مثال لے لو کہ جب اک خاص جماعت کو اسکی ضرورت تھی تو اسکو کس کس چیز سے نوازا نہیں گیا۔ اس کو استعمال کر کے کتنے ھی جائز ناجائز لوگوں کو قتل کروایا گیا۔ یہاں تک کہ اسکی مزید ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسکو امن کا انعام بھی دیا گیا تو دیکھ لو آج اسکا کیا حال ہے۔ وہ جو دن رات پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کرتا تھا آج اس سے کوئی ملاقات کرنے والا نہیں۔ وہ جسکا اک دن لیاری میں ڈنکا بجتا تھا آج اس کے گھر میں فاقے ہیں۔ لیکن جن سیاسی آقاؤں کے لیے اس نے اتنے خون کیے آج وہ اس کو پہچاننے سے بھی انکاری ہیں۔ دوسری طرف انہی سیاسی آقاؤں کی خاطر جیلیں کاٹنے کے لیے جاوید ہاشمی جیسے باغی ھوتے ہیں اور یہ خود مشکل وقت بھانپتے ہی فوراً ملک سے رفو چکر ہو جاتے ہیں لیکن جب اقتدار کی باری آتی ہے تو وزارتیں ان کے گھر سے باہر ہی نہیں نکلتی۔ اب جتنی سیاسی محنتیں چودھری نثار خاں، جاوید ہاشمی، قمر الزماں کائرہ اور امین فہیم جیسے لوگوں نے کی کیا ان لوگوں کو ان کے مطابق نوازا گیا؟ کیا قمر الزماں کائرہ اور امین فہیم کا حق نہیں بنتا کہ انہیں وزیراعظم بنایا جاتا؟ کیا پیپلز پارٹی کی قیادت اور چیرمین اعتزاز احسن سے زیادہ زہین ہے؟ کیا جاوید ہاشمی اور چودھری نثار خاں جتنے منجے ھوئے سیاستدان اس شریف خاندان میں ہیں؟ لیکن جب بھی یہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں تو وزیراعظم نواز شریف ھی بنا۔ وزیراعلی کی کرسی شہباز شریف ہی کے حصے میں آئی۔ ادھر بھی وزیراعظم اور صدارت کی کرسی بھٹو، اور زرداری خاندان میں رہتی ہے اور اگر کسی اور بنایا جاتا ہے تو وہ کٹھ پُتلی ہی ھوتا ھے بیچارہ۔ آئندہ بھی بلاول بھٹو، مریم نواز، حمزہ شہباز، سلمان شھباز اور یہاں تک کہ جنید صفدر ان سیاسی پارٹیوں کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اور قربان جائیں اس عام اور بھولی بھالی عوام کی معصومیت پر کہ انہوں نے ابھی سے ہی بلاول، مریم اور جنید وغیرہ کو اپنا لیڈر مان لیا ہے۔ خدارا ان سیاسی آقاؤں کی خاطر اپنے پیاروں سے لڑائی جھگڑے میں مت پڑیں انکو پتا بھی نہیں کہ آپ کون ہیں۔ آپ کے ھونے نہ ھونے سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اپنے پیاروں سے پیار کریں انکی اصلاح کریں اور مل جل کر ہنسی خوشی سے رہیں۔ جہاں قمر الزماں کائرہ، اعتزاز احسن، نثار خاں، اور جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کی کوئی وقت نہیں وہاں آپ اور میں کیا چیز ۔۔۔ ؟؟؟

Leave a reply