سپریم کورٹ،سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر براہ راست سماعت ہوئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کی سماعت کی، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان تفریق ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آئین سیاسی اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 17اور63اے میں سیاسی اور پارلیمانی پارٹی کاذکر ہے،سلمان اکرم راجہ نے اس حوالے سے درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی . چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سیاسی اور پارلیمانی جماعت کے لیے آئین میں کیاتشریح ہے؟آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 8فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے،آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کیخلاف کھڑے ہو سکتے ہیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں،سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان ایک تفریق ہے،
آپ کو اپنے سربراہ کا نام ہی نہیں معلوم، آپ درخواستگزار ہیں، پارلیمنٹری سربراہ کا کوئی الیکشن ہوتاہے؟چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے، سنی اتحاد کونسل دونوں سیاسی اور پارلیمنٹری پارٹی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں سربراہ کے حوالے سے ابھی بتا دیتاہوں لیکن عدالت میں یہ بات اہم نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو اپنے سربراہ کا نام ہی نہیں معلوم، آپ درخواستگزار ہیں، پارلیمنٹری سربراہ کا کوئی الیکشن ہوتاہے؟ معلوم کیسے ہوتا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹری سربراہ کا مقدمہ سے تعلق نہیں اس لیے اس حوالے سے تیاری نہیں کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے آپ کے سوالات سے پولیٹیکل لفظ ہذف کردیا ہے،
الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟جسٹس منیب اختر
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہونے کے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہوگی تو پارلیمانی پارٹی ہوگی، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اسکے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں،پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے،ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیرمتعلقہ ہے، مناسب ہوگا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، سنی اتحاد میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا، کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہوگئے، الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہونگے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کل سے میں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے،پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہو سکتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازع کی وجہ بنا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، انتخابی نشان کا مسئلہ خود الیکشن کمیشن کا اپنا کھڑا کیا ہوا تھا،الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیکر اپنے کھڑے کیے گئے مسئلے کا حل نکالا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا،کیا کسی امیدوار نے بلے کے نشان کیلئے رجوع کیا تھا؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی مسترد ہونے پر آرڈر چیلنج بھی کیا گیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان صرف سیاسی جماعت کی سہولت کیلئے ہے، انتخابی نشان کے بغیر بھی سیاسی جماعت بطور پارٹی الیکشن لڑ سکتی ہے،
جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کیلئے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا، جسٹس عائشہ ملک
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کیلئے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی،بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟ وکیل نے کہا کہ بلے باز والی جماعت کیساتھ انضمام ختم کر دیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟ وکیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بہت مضبوط توجیہات ہیش کی جا رہی ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے کے بعد بلے کے نشان کو ختم کیا گیا تھا یا نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منیب کے مطابق بلے کے نشان ختم ہونے کے باجود امیدواروں نے پی ٹی آئی امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سر یہ ہی ہم کرنا چاہتے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے ختم کردیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کرنا چاہتے تھے کیا مطلب، ؟ وکیل نے کہا کہ میں سنی اتحاد کونسل کے ہر ممبر کی نمائندگی کر رہا ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل اختلاف آسکتا ہے وہ کہیں ہمارے ممبرز ہیں یہ کہیں ہمارے،
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنی اتحادکونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، الیکشن کمیشن نے درخواست مستردکرتے ہوئےکہا سنی اتحاد کونسل نےانتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تنازع کی بات کیوں کررہے ہیں، بس کہیں الیکشن نہیں لڑا،جو امیدوار ہمارےسامنے نہیں جن کی آپ نمائندگی کررہے ہیں وہ تو سب تحریک انصاف کے ہیں، تحریک انصاف کے امیدوار تو آپ کو چھوڑ رہے ہیں، آپ کی پارٹی میں نہیں آرہے، تحریک انصاف کے امیدوارتوپھرآزاد نہ ہوئے۔
ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے،چیف جسٹس
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ تحریک انصاف کے امیدوار انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑسکتے تھے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کوکس بنیاد پرانتخابی نشان دیا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انتخابی نشان دیا اور بطور آزاد امیدوار شناخت دی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا، ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا،
دلائل آگے بڑھائیں ورنہ آپس میں ہی تنقید ہوتی رہے گی، جسٹس محمد علی مظہر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ایوان کو نشستوں کی مقرر کردہ تعداد سے کم رکھا جا سکتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایوان کی مختص تمام نشستیں پوری ہونا لازمی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ
متناسب نمائندگی کے نام پر ڈراماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں،مخصوص نشستوں پر تو پارٹی سربراہ کی صوابدید ہے چاہے دوستوں کو نواز دے،مخصوص نشستوں میں ووٹرز کا کوئی کردار نہیں ہوتا یہ پارٹی سربراہ مقرر کرتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق لسٹ سیاسی جماعت نے دینی ہوتی سربراہ نے نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا حوالہ دیا اور کہا کہ بظاہر پی ٹی آئی امیدواروں نے پارٹی تبدیل کی، پارٹی تبدیل کرنے پر آرٹیکل 63 اے والا فیصلہ موجود ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی سے متعلق ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دلائل آگے بڑھائیں ورنہ آپس میں ہی تنقید ہوتی رہے گی،
عدالتی فیصلہ آپ کو پسند ہے یا نہیں وہ الگ بات ہے، سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی انتخابات ہوتے تو فائدہ پی ٹی آئی کے لوگوں کا ہوتا،جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری جمہوریت کی بات کریں، عوام کو جماعت میں شامل کرتے ہیں تو ارکان کا حق ہے کہ وہ الیکشن لڑیں،عدالتی فیصلہ آپ کو پسند ہے یا نہیں وہ الگ بات ہے، سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے،آپ نے اس بات کو چھیڑا ہے تو پوری بات کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس پر نظرثانی زیرالتواء ہے کیا سب کچھ یہاں ہی کہنا ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہم سب سچ بولنا شروع کریں تو سچ بہت کڑوا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں پر ملتی ہیں ووٹوں پر نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی میں شمولیت کیلئے جماعت کا اسمبلی میں ہونا لازمی نہیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں اسمبلی میں حاصل کی گئی سیٹوں پر الاٹ ہوتی ہیں، قانون میں نشستیں حاصل کرنے کا ذکر ہے جیتنے کا نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایوان میں زیادہ آزاد امیدوار ہوں اور دو سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہو گا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ یاان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟پہلے اس تنازعے کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حقیقی آزاد امیدوار ہوں تو ان کے تو مزے ہو جائیں گے، حقیقی آزاد امیدواروں کو تو دیگر سیاسی جماعتیں لے لیتی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر یہ 77 لوگ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہ ہوتے پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟
کیس کی سماعت 24جون کو ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 24اور 25کو پورے دو دن کیس کی سماعت کرینگے، ان دو دنوں میں کوئی اور کیسز نہ لگائے جائیں،
سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ملتوی
بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو
حریم شاہ مبشر لقمان کے جہاز تک کیسے پہنچی؟ حقائق مبشر لقمان سامنے لے آئے
حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان
میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ