سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی،الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی وہ نہیں ملی،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے،کیس سے متعلق حتمی پیپر بک جمع کرا دیے ہیں،الیکشن کمیشن سے کہاہے کہ 81 آزادامیدواروں کے کاغذات نامزدگی مجھے دیں ،تحریک انصاف کے فارم 66 بھی عدالت کو فراہم کردوں گا،حامدرضا نے کاغذات نامزدگی میں کہا میرا تعلق سنی اتحاد اور اتحاد تحریک انصاف سے ہے،حامدرضا کے دستاویزات میں کہا تحریک انصاف نظریاتی کے ساتھ منسلک ہوں،تحریک انصاف نظریاتی مختلف سیاسی جماعت ہے جس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں،حامدرضا کو ان ہی کی درخواست پر ٹاور کا نشان انتخابات لڑنے کے لیے دیاگیا،حامدرضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا،
حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟جسٹس منیب اختر کا استفسار
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اردو والے دستاویزات میں تو حامد رضا نے نہیں لکھا کہ میں آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑنا چاہ رہا ہوں ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ حامدرضا خود کو آزادامیدوار نہ کہیں، تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ حامدرضا نے جمع نہیں کروایا،حامدرضا نے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ تحریک انصاف کا دیاہے،حامد رضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں،وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ حامدرضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد کیا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی،
جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ لگانا ضروری ہے،چیف جسٹس
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 12جنوری کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ تھی کاغذات نامزدگی جمع کرانےکی آخری تاریخ کےبعدایک پارٹی کےسرٹیفکیٹ جمع کرانے کےبعد کیا دوسری پارٹی کاسرٹیفیکیٹ دیا جا سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کےپاس امیدوارکے کاغذات نامزدگی کےساتھ منسلک پارٹی سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے جو آخری درخواست ہو اس کے ساتھ جانا ہوتا ہے،پہلے والا فارم الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیکھا،چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ لگانا ضروری ہے نا؟ سرٹیفیکیٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلریشن منسوخ پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟ مختلف شہروں کے ریٹرننگ افسران ہوتے، ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے کام کرےگا نا؟ نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوار کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ امیدوار کی ڈیکلریشن اور پارٹی کے ساتھ وابستگی ظاہر ہونا ضروری ہے،اگر ڈیکلریشن، سیاسی وابستگی میچ نہ ہو تو آزادامیدوار ہوتاہے،
دستاویزات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کا غیر سنجیدہ رویہ تھا؟جسٹس نعیم اختر افغان
حامد رضا نے شروع سے خود کو پی ٹی آئی کا ڈکلیئر کیا کاغذات نامزدگی بھی واپس نہیں لیے ،اس کو آزاد کیسے تصور کیا گیا؟ جسٹس اطہرمن اللہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کے لیے صورتحال کے مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیاجائے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفیکیٹ بھی دےلیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزادامیدوار ظاہر کردیاہو؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کیا دستاویزات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کا غیر سنجیدہ رویہ تھا؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نشان سے کنفیوژ نہ کریں، ہم تحریک انصاف کے امیدوار کیوں نہ تصور کریں سرٹیفیکیٹ میں تضاد نہیں، الیکشن کمیشن امیدوار کی حیثیت تبدیل کررہا،جس پارٹی کا سرٹیفیکیٹ لایا جارہا اسی پارٹی کا امیدوار کو تصور کیوں نہیں کیا جارہا؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ صاحبزادہ حامد رضا نے شروع سے خود کو پی ٹی آئی کا ڈکلیئر کیا کاغذات نامزدگی بھی واپس نہیں لیے ،اس کو آزاد کیسے تصور کیا گیا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے جو سمجھ آرہا کہ امیدوار کے پاس اختیار نہیں کہ آخری تاریخ گزرنے کے بعد اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرے، چیف جسٹس قاض فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کا جواب سمجھ نہیں آرہا لیکن آگے بڑھتے ہیں،
کیا بیان حلفی دیکر دوسری جماعت کا ٹکٹ دینے پر نااہلی نہیں ہوتی؟چیف جسٹس
امیدوار بھی ایسے ہی کنفیوژ ہوئے جیسے الیکشن کمیشن ہے،جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیوں کہا جب خود کو وہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ کہہ رہے تھے؟ کنفیوژن شروع ہوگئی کہ پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا تو امیدوار کیا کرسکتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا بیان حلفی دیکر دوسری جماعت کا ٹکٹ دینے پر نااہلی نہیں ہوتی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی اور ٹکٹ جمع کرائے تو کیا اسے آزاد ظاہر کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ جن 81 امیدواروں کی فہرست آپ نے دی ہے اس میں 35 نے وابستگی ظاہر نہیں کی، 65 امیدواروں نے ریٹرننگ افسر کو انتخابی نشان کیلئے درخواست ہی نہیں دی، ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی امیدوار الیکشن کے حوالے سے کتنے غیر سنجیدہ تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ امیدواروں نے پارٹی وابستگی اور ٹکٹ دونوں پی ٹی آئی کے ظاہر کیے،انتخابی نشان الگ چیز ہے ان امیدواروں کو پی ٹی آئی کا کیوں تصور نہ کیا جائے، امیدواروں نے نہیں الیکشن کمیشن نے انکی حیثیت پارٹی سے آزاد تبدیل کی،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کچھ امیدواروں نے تحریری نہیں زبانی طور پر پر پارٹی وابستگی واپس لی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے سے کنفیوژن پیدا ہوئی، پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی تھی تو امیدوار پارٹی ٹکٹ کہاں سے لاتے؟امیدوار بھی ایسے ہی کنفیوژ ہوئے جیسے الیکشن کمیشن ہے، سکندر مہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تضادات کے باوجود امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے وقت ہی کہا پی ٹی آئی کو نشان نہیں ملے گا،الیکشن کمیشن نے بعد میں پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات منظور بھی کیے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو نان پارٹی انتخابی نشان دے سکتا تھا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائےگا نا کہ انہوں نے کیا کیا ؟ آزادامیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایا تھا،
سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد ہر گز نہیں تھا، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک امیدوار کی بات نہیں، تحریک انصاف کی بات ہورہی جو قومی جماعت ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کہا کہ آپ کو نشان نہیں ملےگا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن ایسا نہیں کہا کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کردیں،سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد ہر گز نہیں تھا، بلے کے نشان کے فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کھڑی ہوتی لیکن تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد نہیں تھا،22 دسمبر 2023 کو صدر مملکت کون تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ دسمبر 2023 میں صدر مملکت عارف علوی تھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا نگران حکومت تھی یا سیاسی جماعت کی حکومت تھی؟کیا کسی نگران حکومت کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ اتنی نیوٹرل جتنا الیکشن کمیشن ہے؟ کیا نگران حکومت اتنی ہی آزاد ہونی چاہیے جتنا الیکشن کمیشن ہے؟
سپریم کورٹ نے ملک میں انتخابات کروائے، مفروضوں والی باتیں کیس میں نہ کریں، فوکس کریں اور ختم کریں اس معاملے کو،چیف جسٹس
امیدوار کو آزاد تصور کیسے کیا جائے جب امیدوار نے سرٹیفیکیٹ واپس نہیں لیا ،جسٹس اطہرمن اللہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھتے تو انتخابات عارف علوی نہ کرواتے، دنیا بھر کی باتیں کررہے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟ سپریم کورٹ نے ملک میں انتخابات کروائے، مفروضوں والی باتیں کیس میں نہ کریں، فوکس کریں اور ختم کریں اس معاملے کو، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کو ایک آئینی ادارہ تسلیم کرتے ہیں ، امیدوار کو آزاد تصور کیسے کیا جائے جب امیدوار نے سرٹیفیکیٹ واپس نہیں لیا ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پشاور کے پانچ رکنی بینچ کو مطمئن کیا، میرے دلائل کو ججز نے باہر نہیں پھینکا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسا نہ کہیں کہ پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دے دیا تو بس ہوگیا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ امیدوار تو کہہ رہا کہ میں فلاں سیاسی جماعت سے منسلک ہوں لیکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ نہیں آپ آزاد امیدوار ہیں،امیدوار نے تو نہیں کہا کہ میں آزاد امیدوار ہوں، وہ تو کہہ رہا کہ سیاسی جماعت سے منسلک ہوں، اگر الیکشن کمیشن نے کوئی دستاویز نہیں دیکھا تو عدالت کو دکھانے کا توکوئی جواز نہیں،
آپ کوئی ایک قانون کی شق دکھا دیں الیکشن کمیشن نے انہیں کیسے آزاد ڈیکلئیر کر دیا؟جسٹس جمال مندوخیل
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے میجر پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم ایک اپیل سن رہے ہیں ہمارے سامنے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا معاملہ نہیں، اس کے باوجود ہمارے سامنے 90 فیصد دلائل انتخابی نشان پر ہو رہے ہیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ پشاور ہائیکورٹ کے پانچ جج ہمارے فیصلے کو برقرار رکھ چکے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ کے پانچ ججوں کے فیصلے کے پابند نہیں،ہم نے جو اصل مسئلہ ہے اسے دیکھنا ہے، سوال یہ ہے الیکشن کمیشن سیاسی جماعت کو ڈس فرنچائز کیسے کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر فیصلہ کیا انتخابی نشان نہیں ہو گا تو پی ٹی آئی جماعت نہیں ہو گی؟ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے اور اس میٹنگ کا ریکارڈ دکھائیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں ریکارڈ دیکھ کر بتاوں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بھی بتائیں الیکشن کمیشن کا اختیار کیا ہے کسی کو آزاد ڈیکلئیر کرنے کا؟ وابستگی کا معاہدہ امیدوار اور جماعت کے درمیان ہوتا ہے ، آپ کوئی ایک قانون کی شق دکھا دیں الیکشن کمیشن نے انہیں کیسے آزاد ڈیکلئیر کر دیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کا جواب یہی ہے نا کہ آپ نے بس انتخابی نشان نہ ہونے پر اس جماعت کو الیکشن سے باہر رکھا؟ بس ہمیں یہ بتا دیں الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر یہ سوچا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہوا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے میجر پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بنچ آپ کو خود بتا رہا ہے آپ کی تشریح غلط تھی،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ صرف آبزرویشن ہیں ابھی اس متعلق کوئی فیصلہ نہیں آیا، انتخابی نشان والے فیصلے کیخلاف نظر ثانی زیر التوا ہے،یہ بات درست نہیں ہے، ہم نے تشریح صیحح کی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد ڈیکلیئر کرکے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ 80 سے زائد امیدواروں کو، چھ امیدواروں نے سرٹیفیکیٹ اور ڈیکلریشن ایک ہی پارٹی کا بھی دیا لیکن چھ کو بھی الیکشن کمیشن نے آزادامیدوار قرار دےدیا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مجھے بتائیں کاغذات نامزدگی واپس نہ لیں تو حلف کی کیا حیثیت ہے؟ میرے سوال کا جواب نہیں دیا جارہا،جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا آپ نے شیکسپیئر کا ڈرامہ دیکھا ہے, وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چند امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے اور آزادامیدوار خود کو ظاہرکیا، آزادامیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوئے، کیس میرا نہیں، سنی اتحاد کا ہے،دیکھنا ہوگا کہ اپیل میں سنی اتحاد نے کیا دلائل و حقائق سامنے رکھے، آزادامیدوار ہونے کے لیے پارٹی جوائن کرنا ضروری ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزادامیدوار نے خود کو امیدوار ظاہرنہیں کیا، الیکشن کمیشن نے آزاد ڈیکلیئر کیا، الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد بنایا، الیکشن لڑا، پھر جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہ رہے تو الیکشن کمیشن کہہ رہا کیسے شامل ہوسکتے؟ الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزادامیدوار کہا اور اب جب امیدوار اپنی پارٹی میں شامل ہونا چاہ رہا تو الیکشن کمیشن مذاق اڑا رہا،
نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے کسی پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے سننا پسند ہے، میرا اپنا دماغ بھی ہے لیکن وکیل کو سننا چاہتاہوں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ تو کسی کو ملا ہی نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ حقائق واضح ہوتے جس کے لیے آپ کا یا میرا بولنا نہیں ضروری، الیکشن کمیشن کے عدالت کو فراہم کیے گئے دستاویزات میں تضاد ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فارم 33 الیکشن کمیشن بناتا جس میں امیدوار اپنا سرٹیفیکیٹ دیتا ہے ، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے شٹل کاک مانگا لیکن شٹل کاک تو الیکشن کمیشن کے پاس نشان دستیاب تھا ہی نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے کسی پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا؟
ڈی جی لاء نے روسٹرم پر مخصوص نشستوں کے حصول سے متعلق سنی اتحادکونسل کامنشور پڑھا،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن ہر سیاسی جماعت کا منشور پڑھ کر انہیں مخصوص نشستیں دیتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مجھے ضروری لگا کہ سنی اتحاد کا منشور عدالت کے سامنے لایاجائے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا میں تمام پارٹیوں کا دیکھوں یا ایک پارٹی کا منشور دیکھوں؟ دیگر پارٹیوں کے منشور کو نظر انداز کیوں کروں؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کسی اور پارٹی کا منشور نہ دیکھیں، آپ میری بات سنیں، میں ہر کسی کو سوال کا جواب دینے کی کوشش کررہاہوں،
الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ کسی پارٹی کو انتخابات سے باہر کرے،جسٹس اطہرمن اللہ
وکیل سکندر بشیر کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز پڑھے گئے ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اگر مخصوص نشست لینی ہے تو جنرل سیٹ جینتی پڑےگی جو سنی اتحاد جیتنے میں ناکام رہی،آزاد امیدواروں کا سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کے سامنے دلائل دینے والے وکلاء کے ساتھ میری ہمدردیاں ہیں، فل کورٹ میں مختلف خیالات سامنے آتے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دیگر فریقین کے وکلاء کو بھی ایسے ہی ٹریٹ کیا گیا جیسے آپ کو کیاگیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا تحریک انصاف اور سنی اتحاد نےکوئی لسٹ دی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، سنی اتحاد نے نہیں دی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دیں؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف کو کوئی مخصوص نشست نہیں دی گئی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انتخابات سے الگ کردیاتھا، سپریم کورٹ اگر کہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کی تو کیا اثرات پڑیں گے؟الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ کسی پارٹی کو انتخابات سے باہر کرے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ کتنا وقت لگےگا؟ ایک دو منٹ؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مجھے کافی وقت دلائل دینے میں لگیں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے کہ جلد ختم کریں، پیر کا دن رکھ لیں؟ ساڑھے گیارہ بجے؟ تحریک انصاف کی لسٹ آج فراہم کردیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں تحریک انصاف کی لسٹ دےدوں گا،سپریم کورٹ نے دیگر وکلاء کو تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ فراہم کرنے کی ہدایت کردی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ دیگر امیدواروں کے سرٹیفیکیٹ اور ڈیکلریشن بھی فراہم کردیں، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے،صرف عدالت کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ درخواست دائر کر دی ہے،
مخصوص نشستوں کا کیس یکم جولائی بروز سوموار تک ملتوی کر دیا گیا،فل کورٹ بینچ مخصوص نشستوں پر سماعت آج بھی مکمل نہ کر سکا
سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت 24 جون تک ملتوی
سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ملتوی
مخصوص نشستیں، فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں نظر نہیں آ رہا، مبشر لقمان
واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ واپس لینے کیلئے یہ اعتراف کرلینا چاہئیے کہ الیکشن والے دن بہت بڑی فاش غلطی ہوئی
بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو
حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان
میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ