6 فروری 2018
۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے نامور صحافی اور ماہر معاشیات صدیق بلوچ کا یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز صحافی، مصنف اور ماہر معاشیات صدیق بلوچ 10 فروری 1940 کو لیاری کراچی میں میر جنگیان خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے پر دادا ایران سے نقل مکانی کر کے کراچی میں آباد ہوئے تھے ۔ صدیق بلوچ نے ابتدائی تعلیم کراچی کے گورنمنٹ پرائمری اسکول سے حاصل کی جبکہ میٹرک سندھ مدرستہ الاسلام سے کیا ، سندھ آرٹس اینڈ کامرس کالج سے ماسٹر اور کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈگری حاصل کی ۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں فعال رہے تھے ، کامرس کالج میں طلبہ یونین کے صدر اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے فعال رہنما رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے کراچی کے ایک نجی کالج میں کچھ عرصہ مدرس کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیے جہاں فیض احمد فیض پرنسپل تعینات تھے لیکن جلد ہی فیض احمد فیض اور صدیق بلوچ کالج کی ملازمت چھوڑ کر صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ صدیق بلوچ جوکہ اپنے قریبی حلقوں میں لالہ صدیق بلوچ کے نام سے پکارے جاتے تھے ،نے پاکستان کے سب بڑے انگریزی اخبار "ڈان” سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا ۔ انہوں نے ڈان میں سب ایڈیٹر ،اسٹاف رپورٹر ،کرائم رپورٹر اور کالم نگار کی حیثیت سے اپنی صحافتی خدمات انجام دیں ۔ صدیق بلوچ صاحب ایک سیاسی کارکن بھی تھے اس لیے انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نعپ) سے بھی وابستگی رکھی اور ملکی سیاست میں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے اور ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو،سردار عطاء اللہ خان مینگل اور نواب خیر بخش خان مری کے بہت قریب رہے۔ میر غوث بخش بزنجو جب بلوچستان کے پہلے سول گورنر مقرر ہوئے تو انہوں نے صدیق بلوچ کو اپنا پی آر او مقرر کیا لیکن جب” نعپ” کی منتخب حکومت کو برطرف کیا گیا تو سردار عطاء الله خان مینگل اور میر غوث بخش بزنجو سے قریبی تعلقات کی بنا پر صدیق بلوچ کو بھی گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے پھر سے اپنی سیاسی اور صحافتی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ کراچی میں انہوں نے اپنے والد صاحب کے نام سے منسوب "جنگیان ہوٹل”بھی کھول رکھا تھا اور وہ سیاسی کارکنوں کے لیے "لنگر خانہ” کا کام دے رہا تھا جس میں سیاسی کارکنان کو بلا امتیاز مفت کھانا فراہم کیا جاتا تھا دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنے دور کے سیاسی اور صحافتی قلندر لالہ صدیق بلوچ جنگیان ہوٹل میں آنے والے سیاسی کارکننوں کو کھانا پیش کرنے کے لیے خود "ویٹر” کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔
صدیق بلوچ نے انگریزی اخبار ڈان سے طویل وابستگی کے بعد علیحدگی اختیار کر کے کراچی سے ” سندھ ایکسپریس ” کے نام سے انگریزی اخبار جاری کیا لیکن مالی مشکلات کے باعث 2 سال بعد انہیں یہ اخبار بند کرنا پڑا۔ 1992 میں صدیق بلوچ نے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے "بلوچستان ایکسپریس ” کے نام سے ایک انگریزی اخبار جاری کیا اور 2002 میں کوئٹہ سے ہی اردو اخبار ” روزنامہ آزادی ” کا بھی اجرا کیا۔ لالہ صدیق بلوچ کے یہ دونوں اخبار بلوچستان میں صحافیوں کے لیے درسگاہ کی حیثیت رکھتے تھے جہاں صدیق بلوچ ایک استاد کی حیثیت سے صحافیوں کی خصوصی تربیت کرتے تھے۔ صدیق بلوچ کراچی یونین آف جرنلسٹ کے دو بار صدر اور کراچی پریس کلب کے نائب صدر بھی رہ چکے تھے ۔ وہ اپنے دونوں اخبارات میں نہایت پابندی کے ساتھ صوبائی اور ملکی صورتحال پر کالم لکھتے تھے جن کی تحریروں کو عوام اور مقتدر حلقوں میں خصوصی توجہ کے ساتھ پڑھا جاتا تھا۔ وہ بلوچستان کا سیاسی مقدمہ بھی بڑی مضبوطی سے لڑتے تھے اس لیے انہیں ” بلوچستان کے حقوق کے سفیر” کے خطاب سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ملک کے ایک نامور صحافی کی حیثیت سے ان کے مقتدر حلقوں خواہ حکومتی اکابرین صدر،وزیراعظم، گورنر ، وزیر اعلیٰ ،وفاقی اور صوبائی وزرا اور اعلیٰ سطح کے سول افسران کے ساتھ تعلقات تھے مگر انہوں نے کبھی بھی ان سے کوئی ناجائز فائدہ اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ بلوچی زبان و ادب اور ثقافت کے ایک سب سے بڑے نجی ادارے "بلوچی اکیڈمی کوئٹہ ” کے چیئرمن بھی رہے۔ انہوں نے بلوچستان کے معاشی اور اقتصادی مسائل کے حوالے سے دو جلدوں پر مشتمل انگریزی میں ایک کتاب” پولیٹیکل اکانامی آف بلوچستان ” شائع کی ۔ صدیق بلوچ 4 زبانوں اردو،بلوچی،انگریزی اور سندھی پر عبور رکھتے تھے ۔ پاکستان کے یہ مایہ ناز صحافی 6 فروری 2018 میں علالت کے باعث دوران علاج کراچی میں انتقال کر گئے لیکن اپنی اعلیٰ صحافتی خدمات کے باعث وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ صدیق صاحب کے پسماندگان میں 5 فرزند محمد عارف، محمد آصف، محمد طارق ، محمد ظفر اور محمد صادق بلوچ شامل ہیں جنہوں نے اپنے عظیم باپ کے صحافتی ورثے کو سنبھال رکھا ہے۔ وہ کوئٹہ سے شائع ہونے والے دونوں اخبار ،بلوچستان ایکسپریس اور "آزادی” کو چلا رہے ہیں تاہم آجکل کے ناسازگار حالات کے باعث انہیں شدید مالی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اخبارات کو سرکاری اشتہارات کی مد میں نظرانداز کرنا ہے ۔ لالہ صدیق بلوچ صاحب کے صحافی شاگرد سندھ اور بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں میرے ہوم ڈسٹرکٹ نصیر آباد سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کے سابق صدر ولی محمد زہری سابق صدر نصیر احمد مستوئی اور کوئٹہ پریس کلب کے شیخ عبدالرزاق بھی شامل ہیں ۔