سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ نے نجی ٹی وی چینل 365 نیوز کے پروگرام "کھرا سچ” میں سینئر صحافی اور اینکر پرسن مبشر لقمان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پانی کی کمی کا مسئلہ سنگین ہے اور اس کے حل کے لیے حکومت پانی کو بچانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کو بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے اور کینال کے پانی پر پنجاب کا بھی حق ہے۔ انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ پہلے ڈیم بھر جاتے تھے اور پھر نہروں سے فصلوں کو پانی دیا جاتا تھا، مگر اب اس میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

ناصر حسین شاہ نے مزید کہا کہ جب سندھ میں سیلاب آیا تو ہمارا ایریگیشن نظام کامیابی سے کام کرتا رہا، سندھ کے دیہی علاقوں کو فصلوں کے لیے پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ محکمہ پی اینڈ ڈی پنجاب نے نہریں نکالنے کی مخالفت کی تھی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاق کے سامنے کھل کر اپنا موقف پیش کیا اور وزیراعظم سے بھی اس بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ کوئی بھی ایسا منصوبہ جو سندھ اور ملک کے لیے نقصان دہ ہو، اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔

کالا باغ ڈیم پر بات کرتے ہوئے وزیر سندھ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سندھ کے لیے کالا باغ ڈیم پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے اور یہ اعتراض برقرار رہے گا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر پیسے موجود ہیں تو دوسرے ڈیم کیوں نہیں بنائے جا رہے؟ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم 16 روہے میں بننا تھا کیا کہ دوسرے ڈیم فنڈز کی کمی کا بہانہ کر کے نہیں بنائے جا رہے۔ پاکستان میں اس وقت ایس آئی ایف سی اچھے کام کر رہی ہے جن کی وجہ سے انویسٹمنٹ آئی اور معاہدے ہوئے، ہم اس کے کام کو سراہتے ہیں زیادہ فصلیں اگانے کے لیے اگر سندھ کی زمین درکار ہے تو ہم دینے کو تیار ہیں

سید ناصر حسین شاہ نے واضح کیا کہ سندھ میں پانی بچانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں اور اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں فصلوں کے لیے پانی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں اگر دریائے سندھ پر کوئی نئی کینال بنائی جاتی ہے، تو اس پر ان کا اعتراض رہے گا کیونکہ اس سے سندھ کے بچوں کا مستقبل متاثر ہو سکتا ہے۔

وزیر سندھ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سندھ میں پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی مدد ضروری ہے، تاکہ تمام صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم میں توازن قائم ہو سکے اور کوئی بھی منصوبہ سندھ کی معیشت یا ماحولیات کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔

سید ناصر حسین شاہ کا مزید کہنا تھا کہ کھالوں کو پکا کرنے کا سب سے زیادہ کام سندھ میں ہوا بھارت نے ہمارے پانیوں پر قبضہ کیا بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ پانی کی کمی کچھ سالوں میں ہو جائے گی بین الاقوامی عدالت یا اقوام متحدہ میں آواز اٹھانا ہو گی۔ بھارت کو بین الاقوامی قوانین پر عمل کرنا یو گا ۔ غلط کام کرنے والے کو سزا ہونی چاہیے ہماری زمینیں بہت زیادہ غیر آباد ہیں کالا باغ ڈیم کے حوالہ سے جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں دو بڑے سیلاب 2010 اور 2022 میں آئے ۔ ہم چاہتے ہیں انتشار نہ ہو ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ ایس آئی ایف سی کا جو کردار ہے اسکو سپورٹ کرتے ہیں لیکن اگر ایک آدھ منصوبے سے اس طرح کا ماحول بنتا یے تو اسے دوسری طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے جیسے میں نے کہا کہ ہماری زمینیں حاضر ہیں۔ چولستان بھی آباد ہونا چاہیے۔ ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ زمین آباد کرنی یے اور دارومدار پانی پر ہے تو پھر وہ علاقہ جہاں زمین ہو جیسے ہمارے پاس تھر ہے ہم دینے کو تیار ہیں اگر اس پر بات نہیں کی گئی تو کی جائے گی ۔ جب ہم مل کر بیٹھتے ہیں تو مسائل ہو سکتے ہیں۔ ایس آئی ایف سی کو ہم سپورٹ کرتے ہیں متنازعہ منصوبوں کو ریویو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی حل نکلے ۔ انڈس سے پانی نکلنے پر ہمیں اعتراض ہو گا ۔ کیونکہ پانی کم ہو گا پینے کے پانی کا بھی اسی پر انحصار ہوتا ہے ۔ حقائق پر مبنی ایشو ہیں ہم پاکستان کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں

Shares: