خالصتان کی حامی تنظیم سکھس فار جسٹس نے ایک آڈیو پیغام جاری کیا ہے، جس میں ایک حاضر سروس بھارتی فوجی نے بھارتی فوج کے اندر شدید بے چینی اور بغاوت کے آثار ظاہر کیے ہیں۔ اس پیغام کے ذریعے کئی اہم انکشافات کیے گئے ہیں جن سے بھارتی فوجی نظام کی اندرونی حالت پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔
آڈیو پیغام میں مذکورہ بھارتی فوجی نے دعویٰ کیا ہے "بھارتی فوج میں بغاوت کی فضا بن رہی ہے، اور بغاوت کو روکنے کے لیے بھارتی کمانڈروں نے سپاہیوں اور افسروں کے موبائل فون ضبط کر لیے ہیں اور سپاہیوں کو کسی بھی قسم کے رابطے سے روک دیا گیا ہے۔”
سکھس فار جسٹس نے واضح طور پر ہدایت جاری کی ہے کہ سکھ فوجی پاکستان کے خلاف کسی بھی جنگ کا حصہ نہ بنیں۔ تنظیم کا مؤقف ہے کہ "یہ مودی حکومت کی سیاسی جنگ ہے، جس کا خالصتانی سکھوں سے کوئی تعلق نہیں۔”تنظیم کے مطابق، انہیں بھارتی فوجیوں کی جانب سے براہ راست پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ سکھ فوجی پاکستان کے خلاف جنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔پنجاب، ہریانہ، راجستھان، اور بنگال سے تعلق رکھنے والے سپاہی بغاوت کریں گے اور اپنی پوسٹیں چھوڑ دیں گے۔ان علاقوں کے فوجی پاکستان آرمی کے پنجاب و کشمیر میں داخلے پر ان کا ساتھ دیں گے۔
سکھس فار جسٹس نے حکومت پاکستان اور پاک افواج سے اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان آرمی پنجاب اور کشمیر میں داخل ہو۔پاکستانی فوج کا داخلہ شری گرو گرنتھ صاحب کی قیادت میں ہونا چاہیے۔ خالصتان اور پاکستان کے پرچم ایک ساتھ ٹینکوں اور توپوں پر لہرائیں۔پنجاب کے سکھ پاکستانی افواج کا خیرمقدم کریں گے۔پاکستان آرمی اور سکھ افواج مشترکہ طور پر دہلی کے لال قلعے پر خالصتان کا پرچم لہرائیں گی۔تنظیم کا مؤقف ہے کہ پاکستان کا یہ اقدام جارحیت نہیں بلکہ ایک دفاعی قدم ہوگا، کیونکہ بھارتی حکومت پہلے ہی پاکستان کے خلاف آبی دہشتگردی کے ذریعے جنگ کا آغاز کر چکی ہے۔
"نہ ہندی، نہ ہندوستان — دہلی بنے گا خالصتان”پیغام میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کو فوری فیصلہ کن فوجی قدم اٹھانا ہوگا تاکہ 220 ملین پاکستانی مسلمانوں کا دفاع ممکن ہو۔بھارت ایک نہیں، نو حصوں میں تقسیم ہو جائے۔







