سمت کی تلاش. مگر کب تک؟
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ اگر کسی ایک مقام پر کھڑی دکھائی دیتی ہے تو وہ ہے "چوراہا”ایک ایسا چوراہا جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں، مگر ہم نہ کبھی سمت کا تعین کر پائے، نہ منزل کی طرف بڑھ سکے۔ ہر چند سال بعد ایک نیا نعرہ، نیا خواب، نئی امید اور پھر وہی پرانا دھوکہ۔ ہم بطور قوم ہر دور میں چوراہے پر ہی کھڑے رہے جمہوریت ہو یا آمریت، سیکولرزم ہو یا مذہبی سیاست، معیشت ہو یا نظریاتی شناخت،ہر موڑ پر سوال وہی رہا: اب کیا ہوگا؟ مگر ہم نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ بار بار ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ نہیں کہ ہم منزل تک نہیں پہنچے، بلکہ یہ ہے کہ ہمیں کبھی یہ معلوم ہی نہیں رہا کہ منزل ہے کیا؟ تعلیمی پالیسی ہو یا خارجہ حکمتِ عملی، صنعتی وژن ہو یا زرعی منصوبہ بندی،ہماری تمام پالیسیاں وقتی، سطحی اور سیاسی فائدے کے تابع رہی ہیں۔ ہر نئی حکومت پرانی پالیسیوں کو لپیٹ کر نئی زبان میں پیک کر دیتی ہے، مگر عملی میدان میں صفر۔ وژن 2025 ہو یا وژن 2030، یہ سب خواب کاغذوں پر تو خوبصورت لگتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کی نیت کہیں نظر نہیں آتی۔

ملک میں ترقی کے دعوے تو ہوتے ہیں مگر یہ صرف رپورٹوں اور پریس کانفرنسز کی زینت بنتے ہیں۔ حقیقت میں ہم آج بھی صاف پانی، بنیادی تعلیم، صحت، بجلی اور گیس جیسے بنیادی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ کسان زبوں حالی کا شکار ہے، نوجوان بے روزگار ہیں اور متوسط طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ مگر سیاست دانوں کے پاس ہر بار ایک نیا بیانیہ، ایک نیا خواب ضرور ہوتا ہےجس کا اختتام صرف نعروں، ٹوئٹس اور اشتہارات پر ہوتا ہے۔

ہر آنے والا حکمران "نیا پاکستان”، "ریاست مدینہ” یا "ترقی کے سنہرے دور” کے نعرے لے کر آتا ہے، مگر یہ نعرے صرف ماضی کے خوابوں کی طرح دم توڑ دیتے ہیں۔ اصل قیادت وہ ہوتی ہے جو سمت کا تعین کرے، ادارے مضبوط بنائے، طویل المدتی منصوبہ بندی کرے،نہ کہ صرف تقاریر اور تصویری مہمات پر گزارا کرے۔

یہ کہنا بھی درست ہے کہ صرف حکمران طبقہ ہی نہیں بلکہ ہم عوام بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ہم ووٹ جذبات کی بنیاد پر دیتے ہیں، فیصلے سوشل میڈیا کی افواہوں سے کرتے ہیں اور جب نتائج برآمد ہوتے ہیں تو شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ ہم نے کبھی سنجیدہ اجتماعی سوچ کو فروغ نہیں دیا، نہ ہی طویل المدتی استحکام کو ترجیح دی۔

کب تک؟
یہ سوال اب صبر کا نہیں، بیداری کا ہے:
ہم کب تک غیر یقینی صورتحال میں زندگی گزارتے رہیں گے؟
کب ہم بحیثیت قوم اپنی سمت کا تعین کریں گے؟
کب ہم اجتماعی روڈ میپ تشکیل دیں گے؟
کب ہم نعرے بازی سے نکل کر منصوبہ بندی، ادارہ سازی اور قانون کی حکمرانی کو اپنا شعار بنائیں گے؟

اب بھی وقت ہے…
اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو وقت کا بہاؤ ہمیں پیچھے چھوڑ دے گا۔ دنیا آگے بڑھ چکی ہے، ہم اب بھی اسی چوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، اپنی منزل خود متعین کرنا ہوگا۔ وگرنہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو صرف سوالات، خالی وعدے اور مایوسیوں کا ورثہ دے کر جائیں گے۔

مگر… کب تک؟

Shares: