اسلام آباد: انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے سندھ کو مقررہ حصے سے زیادہ پانی دیے جانے کی خبروں کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پانی کی تقسیم ہمیشہ منصفانہ اور متفقہ فارمولے کے تحت کی جاتی ہے۔
ارسا حکام کے مطابق، ابتدائی جائزے میں پنجاب حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ارسا ایک خود مختار ریگولیٹری ادارہ ہے جو تمام صوبوں کے ساتھ شفاف طریقے سے کام کرتا ہے اور پانی کی تقسیم میں نہ کسی کا حق مارا جاتا ہے، نہ کسی کو اضافی فائدہ دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے پیر کے روز ارسا کو ایک باضابطہ خط لکھا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ خریف کی فصلوں کے لیے مجموعی طور پر 43 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے، لیکن اس کے باوجود پنجاب کو اس کا مناسب حصہ نہیں دیا جا رہا۔ خط میں مؤقف اپنایا گیا کہ سندھ کو مقررہ حصے سے زیادہ پانی دیا جا رہا ہے، جبکہ پنجاب کے کسانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔پنجاب حکومت کے خط کے مطابق، ربیع کی فصلوں کے دوران بھی پنجاب کو 22 فیصد اور سندھ کو 19 فیصد کم پانی دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ سکھر بیراج پر رائس کینال کو مبینہ طور پر غیرقانونی طور پر پانی دیا گیا جسے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب نے دعویٰ کیا کہ ارسا کی ٹیکنیکل اور ایڈوائزری میٹنگز میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔خط میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ منگلا ڈیم پر دباؤ کم کرنے کے لیے تربیلا سے پنجاب کی نہروں کو پانی دیا جانا تھا، لیکن تربیلا سے پانی نہ ملنے کی وجہ سے منگلا سے اضافی پانی نکالنا پڑا، جو کہ غیر متوازن تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔
ادھر سندھ حکومت نے پنجاب کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ارسا کو لکھے گئے خط کو حقیقت کے منافی قرار دیا ہے۔ وزیر آبپاشی سندھ، جام خان شورو نے کہا ہے کہ سندھ حکومت، پنجاب کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کرتی ہے اور یہ مؤقف اختیار کرتی ہے کہ سندھ کو اس کے حصے کا پانی 1991 کے معاہدے کے تحت دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اپریل کے پہلے 10 دنوں میں سندھ کے کینالز کو 62 فیصد پانی کی قلت کا سامنا رہا، جبکہ پنجاب کے کینالز کو 54 فیصد قلت برداشت کرنا پڑی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 1991 کے معاہدے کے تحت تمام صوبوں کو یکساں قلت برداشت کرنی ہے، اور سندھ کی زراعت خاص طور پر کپاس اور چاول کی کاشت کے لیے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔”ہم صرف پینے کا پانی فراہم کرنے کے قابل رہ گئے ہیں جبکہ پنجاب میں گندم کی کٹائی جاری ہے،” جام خان شورو نے کہا۔
ارسا ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ پنجاب حکومت کی شکایت پر مکمل جائزہ لیا جا رہا ہے اور خط کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت پانی کی قلت ملک بھر میں ہے اور تمام صوبے اس کمی کو مشترکہ طور پر برداشت کر رہے ہیں۔ ایسے میں ایک دوسرے پر الزام تراشی ملک میں مزید بے چینی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ارسا ذرائع کے مطابق، پانی کی تقسیم ایک خودکار نظام کے تحت ہو رہی ہے، جس میں کسی صوبے کو مقررہ حصے سے زیادہ پانی ملنے کا امکان نہیں۔ تمام فیصلے 1991 کے آبی معاہدے اور موجودہ حالات کے مطابق کیے جاتے ہیں، اور ہر مرحلے پر شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
یہ صورتحال پاکستان میں پانی کے نازک مسئلے اور بین الصوبائی تعلقات کی پیچیدگی کو اجاگر کرتی ہے۔ جب ملک کے مختلف حصے پانی کی کمی کا سامنا کر رہے ہوں، تو اس مسئلے کا حل الزام تراشی کے بجائے شفاف مکالمے اور مشترکہ حکمت عملی میں ہے۔