برصغیر کے لیجنڈ پلے بیک گلوکارمحمد رفیع
تم مجھے یوں بھلا نہ پاو گے
جب کبھی بھی سنو گے گیت میرے
سنگ سنگ تم بھی گنگناو گے
محمد رفیع
31 جولائی 1980: یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر کے ایک ورسٹائل اور لیجنڈ پلے بیک گلوکار، محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو کوٹلہ سلطان سنگھ، امرتسر، ریاست پنجاب، متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستانی بالی ووڈ انڈسٹری کے نامور گلوکاروں میں سے ایک تھے اور ہندی گانوں پر ان ان کی ایک خاص گرفت تھی۔ سال 1944 سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے، نامور سدا بہار گلوکار، محمد رفیع ایک ایسا نام ہے جسے ہمیشہ پورے احترام کے ساتھ لیا جاتا رہے گا۔ ان کی آواز ہر ایک کی زندگی میں سکون بخش اور پرسکون عنصر بن گئی، جس نے لوگوں کے مزاج کو غمگین سے خوشی میں بدلنے میں مدد کی۔ محمد رفیع کا موسیقی کی طرف جھکاؤ بہت چھوٹی عمر سے شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بڑے بھائی نے اس کی صلاحیت کو بھانپ لیا اور اپنے خاندان کو راضی کر لیا کہ وہ اسے موسیقی میں اپنا کیریئر بنانے دیں۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم پنڈت جیون لال مٹو سے لی۔ اس کے بعد استاد عبدالواحد خان اور استاد بڑے غلام علی خان اور فیروز نظامی سے تربیت حاصل کی۔ ان کے کیریئر کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے پہلی بار لاہور میں 13 سال کی عمر میں پرفارم کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1941 سے اے آئی آر (آل انڈیا ریڈیو) لاہور میں گانا شروع کیا۔
ان کی شہرت کی ابتدا ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ جگنو فلم کیلئے گائے ہوئے دوگانے ” کبھی دکھ ہے کبھی سکھ ہے” سے ہوئی اور نور جہاں کی شہرت کی ابتدا بھی اسی دوگانے سے ہوئی۔ تقریباً ہر ہندوستانی زبان میں گانے گا کر سپر اسٹار نے کل 7400 گانوں کو اپنی سریلی آواز دی ہے۔ حب الوطنی، اداس، رومانوی، غزلوں، قوالیوں تک، محمد رفیع نے تقریباً ہر قسم کے گیت گائے ہیں۔ان کی گائیکی کا انداز بالکل منفرد تھا جس نے دوسرے گلوکاروں سے آگے کھڑے ہونے میں مدد کی وہ نہ صرف گلوکار تھےبلکہ اپنے آپ میں ایک لیجنڈ اور سپر اسٹار تھے۔ انڈسٹری میں ہر کوئی ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا کیونکہ ان کی آواز میں کامیابی کا ٹیگ تھا۔ ان کی استعداد اور آواز کے معیار کے لیے، انھیں حکومت ہند کی طرف سے دیے گئے پدم شری کے ساتھ ساتھ متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا
وہ حاجی علی محمد اور اللہ رکھی کے ہاں پیدا ہوئے ان کے 4 بھائی تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنی کزن بشیرہ بانو سے شادی کی اور ان کے ہاں ایک بیٹا تھا جس کا نام سعید تھا تقسیم کے بعد انہوں نے اپنے ساتھ ہندوستان آنے سےانکار کردیا اوران کی شادی ختم ہوگئی اس کے بعد انہوں نے بلقیس بانو سے شادی کی اور اس جوڑے کے چار بچے ہوئے جن کے نام نسرین، پروین، خالد اور حامد تھے۔
ان کا عرفی نام ‘فیکو’ تھا۔ محمد رفیع کا جنازہ اس وقت کا سب بڑا جنازہ تھا کیونکہ ان کی تدفین کے وقت 10,000 سے زیادہ لوگ آئے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کی پہلی سالگرہ پر، انہوں نے جواہر لال نہرو سے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ باندرہ، ممبئی میں ایک چوک کا نام ان کے نام پر محمد رفیع چوک رکھا گیا۔ ان کا آخری ریکارڈ شدہ گانا "شام پھر کیوں اداس ہے دوست” تھا۔ محمد رفیع کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے فلم کرودھ (1990) میں محمد رفیع تو بہت یاد آیا کے عنوان سے ایک گانا شامل کیا گیا تھا۔ اس گانے کو معروف گلوکار محمد عزیز نے گایا تھا۔ محمد رفیع نے اردو کے علاوہ ہندی، سندھی، پنجابی و دیگر متعدد زبانوں میں گایا ہے انڈیا پوسٹ نے ان کی یاد میں 15-05-2003 کو ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا رفیع صاحب کا مجسمہ ان کی جائے پیدائش کوٹلہ سلطان سنگھ، امرتسر (پنجاب) میں قائم کیا گیا ہے گوگل نے ان کی 94 ویں سالگرہ پر ڈوڈل کے ذریعے انہیں خراج تحسین پیش کیامحمد رفیع 31 جولائی 1980 کو ممبئی، انڈیا میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئےان کی عمر انتقال کے وقت 55 سال 7 ماہ تھی
محمد رفیع کے گائے ہوئے سیکڑوں سپر ہٹ اردو گیتوں میں سے چند ایک منتخب بول
۔۔۔۔۔۔۔
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم ناراض مت ہونا
یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہوں گے
ہوئے ہم جن کیلئے برباد وہ چاہے ہم کو کریں نہ یاد
انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے
کبھی دکھ ہے کبھی سکھ ہے
بڑی مستانی ہے میری محبوبہ
کھلونا جان کر تم تو میرا دل توڑ جاتے ہو
مجھے عشق ہے تجھی سے میری جان زندگانی
تم مجھے یوں بھلا نہ پائو گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش، ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی