ڈوبتے دیہات، جاگتی ترجیحات
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری انتظامیہ مون سون بارشوں کے حوالے سے مکمل طور پر آگاہ تھی، مگر دیہاتوں میں موجود برساتی نالوں کو کئی کئی سالوں سے صاف نہیں کروایا گیا۔ جی ہاں، ہو سکتا ہے کہ کاغذی کارروائی میں یہ نالے بارہا صاف کیے جا چکے ہوں، لیکن بارش کے دوران ان کی اصل حالت کھل کر سامنے آ گئی۔ دوسری طرف، اربوں روپے فنڈ کی حامل نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا کردار بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔

آج ہم اوکاڑہ کی انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث دیہاتوں کی موجودہ صورتحال سے آگاہی دینے جا رہے ہیں، جہاں حکومتی ادارے دیہی علاقوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ آئیے ان دیہاتوں کی داستان سنیں جنہیں کئی دہائیوں سے حلقہ پی پی 190 کے عوامی نمائندے نظر انداز کرتے آ رہے ہیں۔

22 فور ایل اور 23 فور ایل دو ایسے دیہات ہیں جو آج صرف نقشے پر باقی رہ گئے ہیں۔ بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہے، نکاسی آب کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دونوں گاؤں مکمل طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں۔ قبرستانوں میں دو فٹ تک پانی کھڑا ہے۔ مرنے والے بھی شاید اب یہ پوچھتے ہوں کہ "مر کر بھی چین نہ آیا، تو کدھر جائیں؟” یہ تباہی اچانک نہیں آئی بلکہ یہ برسوں کی غفلت، ناکام منصوبہ بندی اور دیہی علاقوں کو حکومتی ترجیحات سے نکال دینے کا نتیجہ ہے۔

گزشتہ چند روز کی بارشوں نے جہاں موسم کو خوشگوار کیا، وہیں دیہی آبادی کے لیے قیامت بن کر برسیں۔ برساتی نالے جن کی صفائی NDMA اور ضلعی انتظامیہ کی اولین ذمہ داری تھی، کچرے اور مٹی سے اٹے ہوئے ہیں۔ پانی کا کوئی نکاس موجود نہیں، اور جو نکاس موجود تھا وہ صرف کاغذوں کی حد تک رہا۔

یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا 22 فور ایل اور 23 فور ایل پنجاب کا حصہ نہیں؟ کیا وہاں کے رہائشی پاکستانی شہری نہیں؟ ان کا حق صرف الیکشن کے دنوں تک محدود ہے؟ جب پانی گھروں میں داخل ہو جائے، کھیت تباہ ہو جائیں اور مویشی ڈوبنے لگیں تو کیا شہروں سے آنے والی "ریسکیو ٹیمیں” صرف فوٹو سیشن کے لیے کافی ہیں؟

دیہی علاقوں کو ہمیشہ دوسری یا تیسری ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ ان کے اسکول، سڑکیں، اسپتال، اور نکاسی آب کے نظام سب کچھ بدترین حالت میں ہیں۔ سرکاری ادارے صرف اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب میڈیا شور مچاتا ہے یا کسی وی آئی پی کا دورہ متوقع ہوتا ہے۔

اگرچہ اس بار انتظامیہ کی طرف سے خود ڈپٹی کمشنر اور ان کی پوری ٹیم متاثرہ علاقوں میں پہنچی، اور اسسٹنٹ کمشنر اپنی ٹیم سمیت پوری رات سابق نائب ناظم ڈاکٹر الطاف حسین بلوچ کے ڈیرے پر موجود رہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ اقدامات پہلے کیوں نہ کیے گئے؟ کیا محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں موجود نہیں تھیں؟ کیا NDMA کو نہیں معلوم کہ مون سون کا موسم ہر سال پاکستان کے لیے خطرہ بن کر آتا ہے؟

اگر بروقت نالوں کی صفائی کی جاتی، دیہاتوں کے قریب چھوٹے بند بنائے جاتے یا پانی کے نکاس کے مناسب اقدامات کیے جاتے، تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ سرکاری اسکیمیں صرف کاغذوں پر نہ ہوتیں بلکہ عملی صورت اختیار کرتیں تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔

اوکاڑہ کی انتظامیہ نے ان دیہاتوں کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا ہے۔ افسوس ان اداروں پر جو کاغذی رپورٹیں تو خوب تیار کرتے ہیں مگر زمین پر ان کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ اور افسوس ہم سب پر، جو صرف سوشل میڈیا پر اظہار افسوس کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔

اب وقت ہے جاگنے کا۔

دیہات کو ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیے بغیر پاکستان کی ترقی محض ایک خواب ہے۔ دیہات صرف زمینوں کا نام نہیں، وہاں زندگی بستی ہے، محنت ہوتی ہے، اناج پیدا ہوتا ہے۔ اگر دیہات ڈوبتے رہے، تو معیشت بھی ڈوبے گی اور قوم بھی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف، NDMA، اور تمام متعلقہ ادارے دیہی علاقوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ برساتی نالوں کی سالانہ صفائی، نکاسی آب کے مستقل حل، اور مقامی سطح پر ایمرجنسی رسپانس سسٹم کا قیام اب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

Shares: